کچھ عرصے سے’ ہائیبرڈ ورک‘ کی اصطلاح بہت سننے میں آ رہی ہے، جس سے مراد اپنے دفتر کا کام، دفتر کی عمارت میں اپنی نششت پر بیٹھ کر کرنے کی بجائے، اسے اپنے گھر کے کمرے میں، یا کسی اور جگہ سےسرانجام دینا ہے۔
یہ سلسلہ عالمی وبا کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے دوران شروع ہوا تھا۔ اگرچہ کرونا پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، لیکن اپنے گھروں سے کام کرنے والے کارکن اب دفتروں کو لوٹنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
دفتروں میں حاضری گھٹنے سے شہروں اور قصبوں کی معاشی اور دیگر سرگرمیاں متاثر ہوئیں ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر شہروں کو آگے بڑھنا ہے تو انہیں اس نئی حقیقت کو قبول کرنے کے لیے خود کو تیار کرنا ہو گا کیوں کہ انہیں شہر میں اب اتنے کارکن نظر نہیں آئیں گے جتنے ماضی میں دکھائی دیتے تھے۔
بدلے ہوئے حالات میں ان آبادیوں کو خود کو کس طرح تیار کرنا ہو گا جہاں دن بھر کارکنوں کی چہل پہل رہتی تھی اور ان کے دم سے کئی کاروبار پھلتے پھولتے تھے۔ حال ہی میں انتظامی امور میں مشاورت فراہم کرنے والی ایک کمپنی ’مک کینسی اینڈ کمپنی ‘ نے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کرونا کے بعد کی دنیا کتنی مختلف ہے؟اور اب نئی ضروریات اور تقاضے کیا ہیں۔
مک کینسی اینڈ کمپنی کے ایک عہدے دار ریان لوبی کہتے ہیں کہ شہروں میں ایک بڑا اثر تو ان عمارتوں کی مانگ پر پڑا ہے جن کا تعلق دفتر، رہائش اور کاروبار سے ہے۔
اب شہروں میں دفتر جانے کے لیے لوگ ماضی کی طرح ہر روز سفر نہیں کر رہے۔ آس پاس کے ریستورانوں اور ٹھیلوں پر کھانا نہیں کھا رہے۔ خریداریاں نہیں کر رہے۔ شہری علاقوں میں پیدل چلنے والوں کی تعداد بھی بہت گھٹ گئی ہے۔ اعداد و شمار یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اب شہروں میں لوگ 10 سے 20 فی صد تک کم نظر آتے ہیں اور دفتروں کی حاضری میں اوسطاً 30 فی صد تک کمی آ چکی ہے۔
بڑے شہروں سے چھوٹے قصبوں میں منتقل ہونے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ نیویارک شہر کے میٹروپولیٹن علاقے میں 2020 کے وسط سے 2022 کے وسط تک آبادی میں پانچ فی صد کمی ہوئی ہے۔ جب کہ سان فرانسسکو سے بیرونی آبادیوں میں منتقل ہونے والوں کی تعداد 6 فی صد بتائی گئی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کرونا وبا کے دوران شہر سے چلے گئے تھے اور پھر واپس نہیں آئے۔
دارالحکومت واشنگٹن میں یہ صورت حال اور بھی زیادہ نمایاں ہے۔ فروری 2020 سے فروری 2021 کے دوران دن کے وقت شہر میں لوگوں کی تعداد میں 82 فی صد تک کمی دیکھی گئی ۔
2023 میں کیے گئے ایک سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ واشنگٹن کے دفتر وں میں کام کرنے والے ان دو تہائی کارکنوں نے، جو اپنا کام گھر سے بھی کر سکتے ہیں، کہا ہے کہ وہ زیادہ وقت کے لیے گھر سے کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
سروے میں جواب دینے والوں میں سے 38 فی صد نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ انہیں کبھی بھی دفتر نہ جانا پڑے اور وہ گھر سے ہی کام کرتے رہیں۔
شہروں کے اعلیٰ عہدے دار اور منصوبہ بندی کے ماہرین اب خود کو ایک ایسے مستقبل کے لیے تیار کر رہے ہیں جو اس نئی حقیقت سے مطابقت رکھتا ہو۔
واشنگٹن کے میئر آفس میں نائٹ لائف اینڈ کلچر کے شعبے کے ڈائریکٹر صلاح زاپری کہتے ہیں کہ ہمارے 50 فی صد کارکن اب بھی شہر سے باہر کے علاقوں سے کام کر رہے ہیں۔ شہر کے کئی حصوں میں معاشی سرگرمیاں اب تک کرونا وبا سے پہلے کی سطح پر واپس نہیں آئیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کم مدتی حکمت عملی یہ ہے کہ شہر کی زندگی میں حرارت لائی جائے۔ یہاں تقریبات کرنے کی رغبت دی جائے اور لوگوں کے لیے یہاں آنے میں آسانیاں پیدا کی جائیں ۔ اس شہر میں کسانوں کی مارکیٹ لگے اور یہاں موسیقی کے شو منعقد ہوں۔ اس کام میں مدد سے ان سرگرمیوں کو فروغ مل سکتا ہے جن کا روایتی طور پر شہر کی معیشت میں فعال کردار رہا ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل لوبی کہتے ہیں کہ زیادہ تر شہر دفاتر، رہائشی آبادیوں اور کاروباری مراکز کا مجموعہ ہوتے ہیں اورانہیں بدلے ہوئے حالات کے مطابق تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے طور پر لوگ شہروں میں صرف کام کرنے کے لیے ہی نہیں آتے، ان کے آنے کی وجوہات اور بھی ہو سکتی ہیں۔شہر میں تبدیلیاں لا کر لوگوں کو وہاں آنے کی ترغیب دی جا سکتی ہے۔
زاپری کہتے ہیں کہ اب ہماری طویل مدتی حکمت عملی یہ ہے کہ ہم کمرشل عمارتوں کو رہائشی علاقوں میں تبدیل کریں تاکہ انہیں آباد کرنے کے لیے نئے لوگ آئیں، پھر وہاں گراسری اسٹور، ریستوان اور خریداری کے مراکز کھلیں اورنائٹ لائف میں رونق اور چہل پہل آئے۔یہ ایسی چیزیں ہیں جو لوگوں کو ان آبادیوں میں رہنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
یہ معاملہ صرف امریکی دارالحکومت تک ہی محدود نہیں ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2030 تک دنیا بھر کے بڑے شہروں میں 2019 کے مقابلے میں دفاتر کی جگہ میں اوسطاً 13 فی صد کمی آئے گی۔
دفاتر کی طلب میں کمی سے امریکہ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا شہر سان فرانسسکو ہے جہاں دفاتر کے لیے فی مربع فٹ کی قیمت میں 2019 کے مقابلے میں 24 فی صد کمی آئی ہے۔
لوبی کا کہنا ہے کہ اس نئی حقیقت کو قبول کرنے میں کچھ وقت لگ سکتا ہے کیونکہ شہروں میں دفاتر کی عمارتوں کے مالکان کو اب بھی یہ توقع ہے کہ ان کی جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
لوبی کہتے ہیں کہ چونکہ کمرشل عمارتوں کی لیز پانچ سے دس سال تک ہوتی ہے اس لیے بدلی ہوئی صورت حال کو قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے۔اور مالکان کو کمرشل املاک کی گرتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے میں کچھ وقت لگے گا۔
(وی او اے نیوز)