پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قومی ٹیم نے اسی کی دہائی میں جو فتوحات کا سلسلہ شروع کیا وہ گزشتہ صدی کے اختتام تک جاری رہا۔ قومی ٹیم نے طاقت ور میزبانوں کو ان کے گھر میں شکست دی تو کبھی ورلڈ کپ، ایشیا کپ، شارجہ کپ اور ایشین ٹیسٹ چیمپئن شپ جیسے ایونٹ اپنے نام کیے۔
البتہ گزشتہ 20 برسوں میں قومی ٹیم کی باگ ڈور مقامی کوچز کے ہاتھوں میں کم اور غیر ملکی کوچز کے ہاتھوں میں زیادہ رہی ہے۔ مقامی کوچز کی طرح غیر ملکی کوچز بھی کبھی جیت، کبھی ہار کے دور سے گزرے۔ لیکن سوائے آنجہانی باب وولمر کے کوئی بھی کوچ کھلاڑیوں کے دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنے سے قاصر رہا۔
رواں سال اکتوبر میں ہونے والے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے قبل بھی کچھ ورلڈ کپ 1999 جیسے حالات نظر آرہے ہیں۔ ٹیم کو ایک نہیں دو غیر ملکی کوچز جوائن کریں گے۔ جن میں سے ایک سابق آسٹریلوی اوپنر میتھیو ہیڈن اور دوسرے جنوبی افریقہ کے ورنن فلینڈ ر ہیں۔
کیا ان دونوں کھلاڑیوں کی قومی ٹیم کے کیمپ کی موجودگی سے گرین شرٹس کو فائدہ ہوگا؟ اس بات کا دارومدار کھلاڑیوں سے ان کی بات چیت پر منحصر ہو گا۔ اگر انہوں نے باب وولمر کی طرح کھلاڑیوں کا دل جیت لیا تو پاکستان کو کوئی جیتنے سے نہیں روک سکتا اور اگر جیف لاسن کی طرح ناکام ہوئے تو قومی ٹیم بھی ناکام ہوجائے گی۔
غیر ملکی کوچز کی کہانی، نہیں زیادہ پرانی
جہاں 1980 کی دہائی میں قومی ٹیم زیادہ تر بغیر کوچ کے کھیلی وہیں 1990 میں یہ ذمہ داری کسی سابق کھلاڑی کو سونپ دی جاتی تھی۔ جو کوچ اور مینیجر دونوں بن کر کام کرتا تھا۔
نوے کی دہائی کے آخر میں مشتاق محمد، ہارون رشید ، وسیم راجہ، انتخاب عالم اور جاوید میانداد کو کوچ تعینات تو کیا گیا لیکن اچھی کارکردگی کے باوجود وہ زیادہ عرصے نہ چل سکے۔
تاہم سب کچھ 1999 میں بدل گیا جب جاوید میانداد نے ورلڈ کپ سے قبل عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
سابق کپتان اور کوچ مشتاق محمد کو ورلڈ کپ سے چند ہی دن قبل قومی ٹیم کا کوچ نامزد کیا گیا اور ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے جنوبی افریقی کوچ رچرڈ پائی بس کو اسسٹنٹ کوچ مقرر کیا گیا۔
پاکستان نے ایونٹ کے فائنل میں جگہ بنائی۔ جہاں آسٹریلیا نے باآسانی گرین شرٹس کو ہرا کر ٹرافی اٹھائی اور مشتاق محمد اور رچرڈ پائی بس کو عہدہ چھوڑ نا پڑا۔ لیکن کچھ ہی عرصے بعد رچرڈ پائی بس کو پاکستان کا پہلا غیر ملکی کوچ مقرر کیا گیا۔
اکتوبر 1999 میں جب فوجی حکومت آئی تو انہیں منتخب کرنے والی مینجمنٹ ختم ہو گئی۔ اسی برس آسٹریلیا میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے انہیں عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے۔
لیکن رچرڈ پائی بس کا پاکستان کےساتھ رشتہ ختم نہیں ہوا اور وہ مزید دو مرتبہ قومی ٹیم کے ساتھ منسلک ہوئے۔
دو سال بعد پی سی بی نے پھر پائی بس کو قومی ٹیم کی کوچنگ کی ذمہ داری دی جس میں وہ کہیں کامیاب ہوئے تو کہیں ناکام ہوتے رہے۔
گیارہ ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد انہوں نے پاکستان آنے سے معذرت کر لی لیکن پھر ایک سال بعد انہیں قومی ٹیم کے کوچ کی ذمہ داری دے دی گئی۔
رچرڈ پائی بس کی بطور پاکستان کوچ تیسری اور آخری اننگز سب سے 'لو اسکورنگ' رہی۔ جس میں پاکستان کو آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ کے ہاتھوں شکست ہوئی اور ورلڈ کپ میں گرین شرٹس پہلے راؤنڈ سے آگے نہ جاسکے۔
سن 2001 سے 2003 کے درمیان ان کی غیر موجودگی میں مدثر نذر نے کوچنگ کی ذمہ داری سنبھالی۔ لیکن ورلڈ کپ 2003 میں شرمناک شکست کے بعد رچرڈ پائی بس اور پاکستان کی راہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں۔
رچرڈ پائی بس کے بعد آنے والے کوچز
رچرڈ پائی بس ایک، دو نہیں بلکہ تین مرتبہ پاکستان کرکٹ ٹیم سے منسلک رہے۔ لیکن مقامی کوچز کی طرح قومی ٹیم میں وہ کوئی بڑی تبدیلی نہ لاسکے۔
سابق جنوبی افریقی کوچ باب وولمر پاکستان کے وہ واحد کوچ تھے جنہوں نے کھلاڑیوں کو دماغی اور جسمانی طور پر فٹ بنایا بلکہ ان کے دور میں قومی کرکٹرز نے انگلینڈ، بھارت اور سری لنکا کے خلاف تاریخی کامیابیاں حاصل کیں۔
باب وولمر تین سال تک پاکستان کرکٹ ٹیم کے ساتھ منسلک رہے جو کسی بھی ملکی یا غیر ملکی کوچ کے لیے ایک بڑا عرصہ تھا کیونکہ 1998 سے 2004 کے درمیان پاکستان کرکٹ بورڈ نے بہتر نتیجے کی تلاش میں کئی کوچز بدلے۔
ورلڈ کپ 2007 میں پاکستان کی آئرلینڈ کے ہاتھوں شرمناک شکست کے ساتھ ہی باب وولمر کی زندگی کا سفر بھی ختم ہو گیا اور قومی ٹیم ایک اچھے کوچ اور انسان سے محروم ہوگئی۔
باب وولمر کی وفات کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ نے سابق آسٹریلوی فاسٹ بالر جیف لاسن کو کوچنگ کی ذمے داری سونپی۔ جن کی زیرِ نگرانی پاکستان نے پہلے ورلڈ ٹی ٹونٹی کے فائنل میں جگہ بنائی۔ پھر بنگلہ دیش میں ہونے والے کٹپلی کپ کے فائنل میں بھارت کے خلاف فتح سمیٹی۔ لیکن ان کی کوچنگ میں قومی ٹیم اس سے زیادہ کچھ نہ کر سکی۔
سن 2012 میں پاکستان ٹیم کی کوچنگ کے لیے سابق سری لنکن کوچ ڈیو واٹمور کو منتخب کیا گیا۔
سری لنکا کو 1996 کا ورلڈ کپ جتوانے والے واٹمور کے دور میں قومی ٹیم نے دوسری مرتبہ ایشیا کپ جیتا۔ لیکن اس کے علاوہ وہ کوئی خاطر خواہ کارنامہ سر انجام نہ دے سکے۔
سابق جنوبی افریقی اور آسٹریلوی کوچ مکی آرتھر نے 2016 میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی باگ ڈور سنبھالی اور 2019 کے ورلڈ کپ تک قومی ٹیم کے ساتھ رہے۔
کامیابی کے اعتبار سے سب سے بہتر دور مکی آرتھر کا رہا جس میں قومی ٹیم نے آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی جیتی، ٹیسٹ کرکٹ میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور ویسٹ انڈیز میں پہلی مرتبہ ٹیسٹ سیریز میں کامیابی حاصل کی۔
انہیں 2019 کے ورلڈ کپ کے بعد اس وقت فارغ کردیا گیا جب پاکستان ٹیم صرف نیٹ رن ریٹ کی وجہ سے سیمی فائنل میں جگہ بنانے سے رہ گئی۔ آرتھر کے بعد انہی کے دور میں کپتانی کرنے والے مصباح الحق کو قومی ٹیم کا ہیڈ کوچ بنا دیا گیا۔
اگلے ماہ ہونے والے ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے قبل مصباح الحق نے عہدے سےعلیحدگی اختیار کرلی اور ان کی جگہ میگا ایونٹ میں پاکستان کی رہنمائی نئے پی سی بی چیئرمین رمیز راجہ کے نامزد کردہ میتھیو ہیڈن اور ورنن فلینڈر کریں گے۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اور غیر ملکی کوچز کی تعیناتی: ماہرین کیا کہتے ہیں؟
معروف کرکٹ کمنٹیٹر اور سینئر تجزیہ کار مرزا اقبال بیگ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غیر ملکی کوچز کو اس لیے ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان سے میرٹ پر فیصلے کرنے کی توقع ہوتی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے یہی رجحان ہے کہ مقامی کھلاڑیوں کے ساتھ غیر ملکی کوچ بہتر انداز میں ہم آہنگ ہو سکتا ہے کیونکہ ان کا کوئی پسندیدہ نہیں ہوتا اور وہ جو بھی کرتے ہیں، میرٹ پر کرتے ہیں۔
مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ یوں تو پاکستان کرکٹ سے کئی غیر ملکی کوچز جڑے لیکن باب وولمر کا تجربہ سب سے کامیاب رہا، ویسے تو ڈیو واٹمور کے عہد کا بھی آغاز کامیاب رہا، لیکن وولمر کے علاوہ کوئی اور غیر ملکی کوچ زیادہ اچھی کارکردگی نہ دکھا سکا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ میتھیو ہیڈن اور ورنن فلینڈر کو لانے کا فیصلہ اس لیے ٹھیک ہے کیونکہ دونوں ماڈرن زمانے کے کرکٹرز ہیں اور وقت کی کمی کی وجہ سے نئے چیئرمین نے انہی کا نام تجویز کردیا ہے۔
ان کے بقول رمیز راجہ اس سے قبل بھی باب وولمر اور جیف لاسن کو پاکستان لانے میں اہم کردار ادا کرچکے ہیں۔ اس بار وہ بورڈ کے چیئرمین کی حیثیت سے ان دونوں کھلاڑیوں پر بھروسہ کررہے ہیں۔ اس لیے سب کو ان سے اچھی امیدیں وابستہ ہیں۔
مرزا اقبال بیگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی کوچ ہی پاکستان کرکٹ کو سیدھے راستے پر لاسکتا ہے کیونکہ ان کے بقول وہ میرٹ پر لڑکوں کا انتخاب کرتا ہے اور اچھی کارکردگی پر اس کی نوکری کا دارومدار ہوتا ہے۔
مرزا اقبال بیگ کا مزید کہنا تھا کہ جب بھی کوئی مقامی کوچ پاکستان ٹیم کے ساتھ منسلک ہوا تو کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہوئی ہے۔ غیر ملکی کوچ کے آنے سے حالات بہتر ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں۔ ایک تو اسے اپنی نوکری کو بچانا ہوتا ہے۔ اس لیے وہ ٹیم کے ساتھ محنت کرتا ہے کیونکہ اگر ٹیم نہیں جیتتی ہے، تو پاکستانی میڈیا اس کو آڑھے ہاتھوں لیتا ہے۔
'میتھیو ہیڈن، ورنن فلینڈر کوچنگ نہیں، مینٹورنگ کریں گے'
ادھر سابق کپتان راشد لطیف سے جب وائس آف امریکہ نے پوچھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ صرف ان کوچز کو کیوں منتخب کرتا ہے جو اپنے ملک میں کوچنگ نہیں کرتے تو ان کا کہنا تھا کہ رچرڈ پائی بس جب پاکستان ٹیم سے منسلک ہوئے تو ایک منجھے ہوئے کوچ تھے۔ البتہ رمیز راجہ کے منتخب سابق کھلاڑی کوچ نہیں، مینٹور کے طور پر آرہے ہیں۔
راشد لطیف کا کہنا تھا کہ میتھیو ہیڈن اور ورنن فلینڈر کا تقرر بطور کوچ نہیں بلکہ بحیثیت کوچز کنسلٹنٹ ہوا ہے، بغیر سرٹیفیکیشن کے نہ تو یہ پاکستان ٹیم کے کوچ بن سکتے ہیں، نہ ہی پاکستان کرکٹ بورڈ انہیں اس پوزیشن میں ڈالے گا۔ یہ دونوں کھلاڑی بطور مینٹور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی کے دوران قومی ٹیم کے ساتھ رہیں گے اور اپنے تجربات شئیر کریں گے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان میں لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر غیر ملکی کوچ ہوگا تو غیر جانبدار ہوگا۔ سب سے ایک جیسا سلوک کرے گا۔ لیکن اس کے برعکس سوائے باب وولمر کے کوئی بھی غیر ملکی کوچ کوئی بڑا کام کرکے نہیں گیا۔ آغاز میں تو سب ہی زور لگاتے ہیں، لیکن سب کا اختتام ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔
راشد لطیف جو خود بھی افغانستان جاکر بطور غیر ملکی کوچ اپنی خدمات دے چکے ہیں، سمجھتے ہیں کہ غیر ملکی ٹیموں کے لیے پاکستان اتنا ہی محفوظ ہے جتنا ان غیر ملکی کھلاڑیوں کے لیے جو پاکستان آتے ہیں اور سیریز کے دوران اپنی ماہرانہ رائے ٹی وی پر دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ نیوزی لینڈ کی سیریز میں جو بھی ہوا، وہ حکومتی لیول پر ہوا۔ پی ٹی وی میں بھی ہم نے کئی بار برائن لارا، ویویئن رچرڈز، ہرشل گبز اور مارون اتاپتو جیسے کھلاڑیوں کو بلایا اور ان کی مہمان نوازی کی۔ اجے جڈیجا بھی ہو کر گئے۔ سب کے لیے پاکستان محفوظ ملک ہے۔ یہ جو ممالک پاکستان نہیں آرہے، وہ کرکٹ سے بہت آگے کی بات ہے۔
کیا اچھا کھلاڑی اچھا کوچ بھی ثابت ہوتا ہے؟
ادھر مرزا اقبال بیگ کا کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ صرف اچھا کپتان یا کھلاڑی ہی اچھا کوچ بن سکتا ہے۔ ضروری یہ ہے کہ کوچ اور کھلاڑیوں کے درمیان جو رشتہ ہو، وہ کوچ اور کھلاڑی کا ہو۔ جو صرف اس وقت ممکن ہے جب کوچ کھلاڑیوں کے ساتھ نہ کھیلا ہو۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر ملکی کوچز پرترجیح کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مقامی کوچز کو باگ ڈور سونپنا نہیں چاہیے لیکن کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ان کھلاڑیوں کو کوچ نہ بنایا جائے جو ان لڑکوں کے ساتھ کھیلے ہوئے ہوں۔ اگر کوئی سابق کھلاڑی جو لڑکوں کے ساتھ کھیلا ہوا ہو، وہی کوچ بن جائے تو اس میں اور لڑکوں کے درمیان فاصلہ برقرار نہیں رہتا جس کی وجہ سے مشکلات پیدا ہوتی ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ ماضی میں جاوید میاں داد، وقار یونس اور اب مصباح الحق کی مثالیں سب کے سامنے ہے۔ وہ جب کوچ بنے تو ٹیم میں اختلافات سامنے آئے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ بڑے کھلاڑیوں کو اگر پاکستان کی خدمت کرنا ہی ہیں تو پہلے انہیں انڈر 19 اور اے ٹیم کو کوچنگ دینی چاہیے تاکہ وہ پاکستان کرکٹ کی ترقی اور نئے لڑکوں کی گرومنگ میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔