مارشل لا نہ لگنے کی یقین دہانی: کیا فوج واقعی سیاست سے دُور ہو گئی ہے؟

افواجِ پاکستان کی جانب سے پاکستان میں اب مارشل لا نہ آنے کی یقین دہانی اور جمہوریت کے حق میں بیانات کو جہاں سراہا جا رہا ہے تو وہیں بعض حلقے اب بھی یہ کہتے ہیں کہ فوج سیاسی معاملات سے صرفِ نظر نہیں کر سکتی کیوں کہ یہ طاقت کی جنگ ہے اور کوئی بھی صرف بیانات کے ذریعے اس سے دُور رہنے کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔

پاکستان کی جمہوری تاریخ فوج کی سیاست میں مداخلت کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ کئی برس تک فوج براہِ راست طاقت میں رہی تو کئی ادوار میں فوج پر یہ الزام لگتے رہے کہ وہ درپردہ سیاسی جماعتوں کی حمایت کرتی رہی ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کے مطابق سیاست دانوں کی غلطیوں ،کوتاہیوں یا کرپشن کی فائلوں کو حساس اداروں کے ذریعے ریکارڈ رکھ کر سیاست دانوں کو اپنی مرضی سے چلانے کی کوششیں بھی ہماری سیاسی تاریخ کا حصہ ہیں۔

ایسے حالات میں افواجِ پاکستان کے ترجمان کی جانب سے مارشل لا نہ لگنے کی یقین دہانی پر سیاسی تجزیہ کار مختلف آر کا اظہار کر رہے ہیں۔

کیا فوج حقیقتاً سیاست سے دور ہوگئی ہے؟

سینئر دفاعی تجزیہ کار لیفٹننٹ جنرل(ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ پاکستان کی فوج نے بھی 75 برس کے تجربے کے بعد سوچا ہے کہ وہ سیاست سے دور رہیں، اگرچہ بہت وقت کے بعد ایسا سوچا گیا لیکن یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے کی وجہ سے فوج پر تنقید بھی کی جارہی ہے اور بعض افراد سمجھتے ہیں کہ فوج کو اس عمل میں شامل رہنا چاہیے لیکن میرے خیال میں یہ ایک اچھا فیصلہ ہے اور اس پر فوج خود سے عمل کرنا چاہتی ہے ۔

SEE ALSO: نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں کسی سازش کا ذکر نہیں ہے: ترجمان پاکستان فوج

افواجِ پاکستان کے ترجمان نے جمعرات کو اپنی تفصیلی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ عوام اور سیاست دانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوج کو سیاسی معاملات سے دُور رکھیں۔

افواجِ پاکستان کے کاروبار سے متعلق کتاب 'ملٹری انکارپوریٹڈ' کی مصنفہ عائشہ صدیقہ فوج کی جانب سے سیاست سے دُور رہنے کی یقین دہانی پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ایسی کوئی بات نہیں کہ فوج غیرسیاسی ہوگئی ہے، فوج بدستور سیاست میں ہے باوجود اس کے انہوں نے اس عمل سے الگ ہونے کے واضح اعلانات کیے ہیں۔

عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ "فوج خود بھی سیاست میں ہے اور لوگ انہیں اس سے باہر نکلنے بھی نہیں دے رہے۔ ہمارے صحافی بھی ان سے پریس کانفرنسوں میں آپریشنل تیاریوں پر پوچھنے کے بجائے صرف سیاسی سوالات پوچھتے ہیں۔ سیاسی معاملات میں عمران خان بھی انہیں ہی بلاتے ہیں اور معاشرے میں سب لوگ انہیں سیاست میں ہی رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔"

عائشہ صدیقہ نے کہا کہ اس تمام عمل میں تبدیلی آسان نہیں ہے، صرف پاکستانی فوج کا کہنا کافی نہیں ہم ان پر اعتماد کیسے کریں کہ وہ واقعی سیاست سے دور ہوگئے ہیں۔

سیاست دان فوج کی طرف دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں؟

بعض تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ فوج اگر سیاست سے دُور ہونا بھی چاہتی ہے تو پھر بھی کچھ سیاست دان نہیں چاہتے کہ فوج غیر سیاسی ہو۔

ماہرین کے مطابق حال ہی میں سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے بھی سیاسی بحران کے حل کے لیے فوج سے ہی مدد طلب کی۔

خیال رہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے جمعرات کو پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آنے کے بعد آرمی چیف سے کہا تھا کہ وہ اپوزیشن سے بات کر کے اس سیاسی بحران کو ختم کریں۔ اس حوالے سے تین آپشنز کی بھی بات سامنے آئے تھی۔

بعض تجزیہ کاروں کے بقول سیاست دان خود ہی یہ نہیں چاہتے کہ فوج سیاست سے دُور رہے۔

لیفٹننٹ جنرل (ر) طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ہمارے سیاست دان گزشتہ 75 برسوں سے سیاسی بحرانوں کے دوران پارلیمنٹ یا کسی اور آئینی فورم کی طرف دیکھنے کے بجائے فوج کی طرف دیکھتے رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے پاس سب سے بہترین آئینی فورم پارلیمنٹ کی صورت میں موجود ہے ، اس کے ساتھ قومی سلامتی کمیٹی، پارلیمانی سلامتی کمیٹی، یا دیگر کمیٹیوں کی صورت میں ان کے پاس مختلف فورمز موجود ہیں لیکن اس کے باوجود وہ فوج کی طرف دیکھتے ہیں۔

اُن کے بقول جو سیاست دان اب بھی فوج کی طرف دیکھ رہے ہیں وہ غلطی کررہے ہیں۔ اگر اب بھی کوئی ایسی سوچ رکھتا ہے تو ان سیاست دانوں کو پہلے اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے کہ وہ کس قدر جمہوری ہیں۔


تجزیہ کار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ حالیہ عرصے میں پاکستانی فوج کے سیاست سے دوری کے بیانات کی بڑی وجہ عمران خان ہیں جن کی وجہ سے فوج کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ عمران خان کو کئی سال تک فوج نے خود چلایا اور اب وہ ان پر بھی الزامات عائد کر رہے ہیں۔

عائشہ کا کہنا تھا کہ طاقت کا اصول ہے کہ کوئی بھی شخص طاقت کو نہیں چھوڑتا جب تک اسے اس بات پر مجبور نہ کردیا جائے۔

وہ کہتی ہیں کہ پاکستان میں فوج پر سیاسی معاملات سے خود کو الگ رکھنے کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ سیاسی جماعتیں ابھی بھی فوج کو مداخلت پر مجبور کررہی ہیں کہ آپ آئیں اور مداخلت کریں اور کسی ایک جماعت کے بجائے ہماری مدد کریں۔ ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ ایسے میں فوج سیاست اور طاقت سے کیسے دور رہ سکتی ہے؟