کیا سری لنکا میں چین کے حامی صدر کا انتخاب بھارت کے لیے پریشان کن ہے؟

  • سری لنکا میں چین کے حامی صدر کے آنے کے بعد خطے میں چین مخالف قوتوں کی مضبوطی کے خدشات ہیں۔
  • بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سری لنکا کا صدر منتخب ہونے پر پیر کو چین کے حامی کمیونسٹ رہنما انورا کمارا دیسانائیکے کو مبارکباد دی ہے۔
  • نئی دہلی کے مبصرین کا کہنا ہے کہ 'جے وی پی' کے نظریات بھارت مخالف ہیں۔
  • سن 2022 میں سری لنکا میں آئے اقتصادی بحران کے وقت بھارت نے سری لنکا کو ساڑھے چار ارب ڈالر دیے تھے: تجزیہ کار شیخ منظور احمد

سری لنکا میں چین کے حامی سمجھے جانے والے صدر کے انتخاب پر بعض حلقے اسے بھارت کے لیے ایک اور دھچکہ قرار دے رہے ہیں۔ جب کہ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ سری لنکا بھارت جیسے بڑے ملک کے ساتھ اپنے تعلقات خراب نہیں کرے گا۔

بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے سری لنکا کا صدر منتخب ہونے پر پیر کو چین کے حامی کمیونسٹ رہنما انورا کمارا دیسانائیکے کو مبارکباد دی ہے۔

دیسانائیکے نے اس کا مثبت جواب دیا ہے۔ تاہم دہلی کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ کیا دیسانائیکے کا انتخاب بھارت کے لیے پریشانی کا باعث ہے؟

نئے صدر مارکسی نظریات کی حامل سیاسی جماعت ’جنتا ویمکتی پیرامونا‘ (جے وی پی) کے رہنما اور پارلیمان میں کولمبو سے اپنی پارٹی کے نمائندے ہیں۔ انھوں نے پارلیمان کو تحلیل کر دیا ہے اور 14 نومبر کو انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مقصد حکومت پر اپنی گرفت کو مضبوط بنانا بتایا جا رہا ہے۔

سری لنکا 2022 میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں صدر گوتابایا راجا پکشا کی بے دخلی کے بعد کے چیلنجز سے دوچار ہے۔ ایسے میں پہلی بار چین کے حامی کسی کمیونسٹ رہنما کا بطور صدر انتخاب سری لنکا کی سیاست کا ایک اہم واقعہ ہے۔

نئی دہلی کے مبصرین کا کہنا ہے کہ 'جے وی پی' کے نظریات بھارت مخالف ہیں۔ پارٹی کے بانی صدر روہانا وجے ویرا نے 1980 میں بھارت پر توسیع پسندی کا الزام عائد کیا تھا اور یہاں تک کہ اسے سری لنکا کے مفادات کا دشمن قرار دیا تھا۔

جے وی پی نے 1987 میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہونے والے معاہدے کی مخالفت کی ہے۔ یہ معاہدہ اس وقت کے سری لنکا کے صدر جے آر جے وردھنے اور بھارت کے وزیرِ اعظم راجیو گاندھی کے دور میں ہوا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نومنتخب صدر عسکریت پسند تنظیم ’لبریشن ٹائگرس آف تمل ایلم‘ (ایل ٹی ٹی ای) اور سری لنکا کی افواج میں ہونے والی خانہ جنگی کے دوران مبینہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے مخالف ہیں۔

بھارتی میڈیا کے مطابق دیسانائیکے نے سری لنکا کی تمل اقلیت کو اختیارات دینے والی آئین میں 13 ویں ترمیم کے نفاذ کے تعلق سے تردد کا اشارہ دیا ہے۔ نئی دہلی اس ترمیم کا ایک عرصے سے مطالبہ کرتا رہا ہے۔

تاہم نئی دہلی کے اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق انھوں نے آئینی ترامیم کی وکالت کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا ہے کہ ترامیم کے ان دفعات کا نفاذ ضروری ہے جو کہ امن حامی ہیں اور جن کی نظر ماضی کے بجائے مستقبل پر ہے۔ ان کے مطابق تمل عوام کو سیاست میں اختیارات کی مضبوط گارنٹی دی جانی چاہیے۔ ان کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق ہے۔

بھارت کے لیے پریشان کن مگر سری لنکا کے لیے بھی چیلنج

سینئر تجزیہ کار شیخ منظور احمد کہتے ہیں کہ دیسانائیکے کا انتخاب بھارت کے لیے تو پریشان کن ہے ہی خود دیسانائیکے کے لیے بھی ایک چیلنج ہے۔ ان کے سامنے چیلنج یہ ہے کہ وہ کس طرح بھارت اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کو نبھاتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ انھیں یہ یاد رکھنا ہو گا کہ بھارت سری لنکا کا قریبی ہمسایہ ملک ہے۔ لہٰذا انھیں اس کے ساتھ اپنے رشتوں کو متوازن رکھنا چاہیے۔

ان کے مطابق سابقہ حکومتوں میں بھی چین کے لیے نرم گوشہ رہا ہے۔ ہمبن ٹوٹا میں بندرگاہ کی تعمیرکی اور دوسرے منصوبوں میں چینی سرمایہ کاری اس کی مثال ہے۔

یاد رہے کہ ہمبن ٹوٹا بندرگاہ ’سری لنکا پورٹ اتھارٹی‘ (ایس ایل پی اے) کے تحت آتا ہے جس کی تعمیر کا کام چین نے 2008 میں شروع کیا تھا۔ اس کا پہلا مرحلہ 2010 میں اور دوسرا 2015 میں مکمل ہوا۔

سری لنکا میں بحران اور بھارت کی مدد

شیخ منظور احمد کہتے ہیں کہ 2022 میں سری لنکا میں آئے اقتصادی بحران کے وقت بھارت نے سری لنکا کو ساڑھے چار ارب ڈالر دیے تھے اور قرض کے بوجھ کو کم کرنے میں مدد دی تھی۔

اسی درمیان دیسانائیکے کا یہ بیان سرخیوں میں آیا تھا کہ وہ اڈانی گروپ کے ساتھ ہونے والے 450 میگاواٹ وِنڈ پاور پراجیکٹ کو منسوخ کر دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ معاہدہ سری لنکا کی توانائی کی خود مختاری کے خلاف ہے۔ انھوں نے معاہدے کو بدعنوانی پر مبنی قرار دیا تھا۔

تجزیہ کار کے مطابق کسی بھی ملک کے لیے کسی اقتصادی معاہدے کو منسوخ کرنا آسان نہیں ہوتا۔ سیاسی فیصلے تو فوری طور پر کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس قسم کے فیصلے غور خوض اور اقتصادی ماہرین سے مشاورت کے بعد ہی کیے جاتے ہیں۔

اخبار ٹائمز آف انڈیا نے حکومت کے بعض ذرائع کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نئی دہلی کے خیال میں اگرچہ دیسانائیکے کچھ بھارتی پراجیکٹوں کو نئی شکل دینا چاہیں گے لیکن اس کا امکان کم ہے کہ وہ ان میں سے کسی کو منسوخ کر دیں۔

رپورٹ کے مطابق دیسانائیکے نے بھارتی اہل کاروں سے گفتگو میں ہمبن ٹوٹا پورٹ اور کولمبو پورٹ سٹی پراجکٹ سمیت بعض چینی فلیگ شپ منصوبوں کے نفاذ میں بدعنوانی اور عدم شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا یہ مؤقف بھارت کے عدم شفافیت مخالف مؤقف سے مطابقت رکھتا ہے۔

یاد رہے کہ دیسانائیکے نے رواں سال فروری میں بھارتی حکومت کی دعوت پر نئی دہلی کا دورہ کیا تھا اور وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول سے ملاقات کی تھی۔ اس موقع پر انھوں نے سری لنکا کے اقتصادی بحران سے نمٹنے میں بھارت کے کردار کی ستائش کی تھی۔

انھوں نے حالیہ دنوں میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ سری لنکا اور بھارت کے درمیان دیرینہ باہمی تعلقات ہیں اور ان کی پارٹی ان تعلقات کو مضبوط کرنے کے حق میں ہے۔

بھارت مخالف قوتوں کے مضبوط ہونے کے خدشات

بعض تجزیہ کاروں نے بھی سری لنکا میں کمیونسٹ اور چین حامی صدر کے انتخاب پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کوئی بھی ایسا ہمسایہ ملک نہیں ہے جس سے بھارت کے رشتے دوستانہ ہوں۔ خطے میں بنگلہ دیش واحد دوست ملک تھا۔ لیکن شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس کے ساتھ بھارت کے رشتوں میں سرد مہری آگئی ہے۔

اخبار ’بزنس اسٹینڈرڈ‘ کے لیے اپنے مضمون میں تجزیہ کار بھاسور کمار لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے بعد سری لنکا میں ہونے والی تبدیلی پر بھارت کی گہری نظر ہے۔ بھارت میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ خطے میں بھارت مخالف قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔

تجزیہ کار سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ ساتھ ہمسایہ ملکوں مالدیپ، نیپال اور میانما رکی بھی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ چین اور پاکستان سے پہلے ہی بھارت کے تعلقات خراب ہیں۔ ایسے میں اسے سفارتی کشمکش سے گزرنا ہوگا۔

شیخ منظور احمد پاکستان، چین، سری لنکا، بنگلہ دیش، مالدیپ، نیپال اور میانما رکی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں میں جنوبی ایشیا میں کافی تبدیلیاں آئی ہیں۔ ان ملکوں سے بھارت کے رشتے اچھے نہیں ہیں۔ اسے اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ اس کے بارے میں ایسا تاثر نہ جائے کہ وہ بڑے بھائی کا کردار ادا کر رہا ہے جس کی جہ سے پڑوسی خوش نہیں ہیں۔

ان کے خیال میں پڑوسی ملک بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مساوات کی بنیاد پر چاہتے ہیں۔ خطے کے چھوٹے ملکوں کو ایسا احساس نہیں ہونا چاہیے کہ ان کے ساتھ بھارت کے رشتے مساوی نہیں ہیں۔