|
اسلام آباد -- پاکستان کی حکومت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مذاکرات 'سازگار ماحول' میں ہوئے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ فریقین کے درمیان بداعتمادی بہت بڑھ چکی ہے، لہذٰا بہت جلد کسی بریک تھرو کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
اپریل 2022 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ عمران خان کی جماعت اور حکومت کے درمیان بات چیت کا سلسلہ شروع ہوا ہے۔
اس سے قبل عمران خان حکومت سے مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کرتے تھے جس کے جواب میں بعض حکومتی رہنما بھی پی ٹی آئی کو 'انتشاری ٹولہ' کہہ کر بات چیت نہ کرنے کا عندیہ دیتے تھے۔
پیر کو اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی صدارت میں پہلا مذاکراتی اجلاس قومی اسمبلی میں منعقد ہوا جس میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی مذاکراتی کمیٹیوں کے ارکان نے شرکت کی۔
اعلامیے کے مطابق دونوں کمیٹیوں نے مذاکرات جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہوئے آئندہ اجلاس دو جنوری کو بلانے پر اتفاق کیا ہے جس میں حزبِ اختلاف ’اپنے مطالبات تحریری صورت میں حکومت کو دے گی۔‘
اعلامیے کے مطابق اجلاس ’سازگار ماحول میں ہوا اور فریقین نے بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔‘
مذاکرات کا مستقبل کیا ہو گا؟
طویل عرصے تک حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان محاذ آرائی کے ماحول کے بعد کیا یہ مذاکرات آگے بڑھ پائیں گے؟
مبصرین کا کہنا ہے کہ مذاکرات کا آغاز ملک میں جاری سیاسی بے یقینی کے ماحول میں کمی لائے گا جس سے معاشی اور سماجی استحکام لانے میں مدد ملے گی۔
صحافی و تجزیہ نگار رضا رومی کہتے ہیں کہ مذاکرات کا آغاز یقینی طور پر امید افزا بات ہے لیکن اس عمل کو کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے ابھی بہت سے مراحل آئیں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ حزبِ اختلاف اور حکومت کے مطالبات کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس عمل سے فوری نتائج نکلنا مشکل ہے اور کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے کے لیے طویل فاصلہ طے کرنا ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی کے بعض مطالبات اگرچہ حکومت پہلے ہی مسترد کر چکی ہے لیکن بعض ایسے مطالبے ہیں جن پر فوری عمل کیا جا سکتا ہے۔
اُن کے بقول 26 نومبر کی تحقیقات کے لیے عدالتی کمیشن کی تشکیل پر حکومت کو مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ جیسے بھی صحیح حکومت اور حزبِ اختلاف کا بات چیت کی میز پر بیٹھنا خوش آئند ہے اور اب اس کی کامیابی کا دارومدار فریقین کی سنجیدگی پر ہے۔
پی ٹی آئی مذاکرات کے لیے کیسے آمادہ ہوئی؟
کیا حکومت پی ٹی آئی کے ان مطالبات پر اپوزیشن کو کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پی ٹی آئی کو اس وقت حکومت سے بات چیت کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟
تجزیہ نگار سلیم بخاری کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے مذاکرات کے حوالے سے انکاری رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ عمران خان نے گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت میں بھی شہباز شریف کی مذاکرات کی پیش کش کو مسترد کیا اور آصف زرداری اور بلاول بھٹو کی بات چیت کی پیش کش کو اہمیت نہیں دی۔
وہ کہتے ہیں کہ عمران خان بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتے تھے اور اگر مذاکرات چاہتے تھے تو وہ صرف اسٹیبلشمنٹ کی جانب اشارہ کرتے تھے۔ لیکن جنرل (ر) فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعد سے سابق وزیر اعظم کے رویے میں اچانک تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے بھی اپنی سوچ تبدیلی کی ہے اور پہلے مذاکرات نہ کرنے یا صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کرنے سے ہٹ کر اب وہ حکومت سے مذاکرات پر آمادہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت دونوں کو اندازہ ہے کہ گزشتہ دو سال کی محاذ آرائی سے کسی کو فائدہ نہیں ہوا۔ لہذا دونوں جانب اگر نیت ٹھیک ہو گی تو کوئی نہ کوئی راستہ نکل آئے گا۔
رضا رومی بھی سمجھتے ہیں کہ جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری اور کورٹ مارشل کے آغاز کے بعد عمران خان کی حکمتِ عملی میں تبدیلی واقع ہوئی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی عوامی احتجاج سے بھی متوقع نتائج حاصل نہیں کر سکی اور 26 نومبر کے اسلام آباد مارچ کا منصوبہ بھی زیادہ کامیاب نہیں رہا۔
حکومت تحریکِ انصاف کو کیا رعایت دے سکتی ہے؟
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر کوئی ضمانت دینے کی پوزیشن میں ہے؟
مذاکرات کے پہلے دور کے بعد مقامی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما اسد قیصر نے بتایا کہ ان کی طرف سے مطالبات واضح طور پر سامنے رکھے گئے جن میں سرِ فہرست ’عمران خان سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ ہے۔
اُن کے بقول ساتھ ہی انہوں نے حکومت سے نو مئی اور 26 نومبر کے واقعات پر انکوائری کرانے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
رضا رومی کہتے ہیں کہ 190 ملین ڈالر کے مقدمے کے فیصلے کے التوا سے بھی لگتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے معاملے پر کچھ لچک دکھائی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کے 26 نومبر اور نو مئی کے واقعات پر عدالتی کمیشن بنانے اور عمران خان کی رہائی کے مطالبے میں سے حکومت کو 26 نومبر کے معاملے پر فوری عدالتی کمیشن بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ساتھ ساتھ عمران خان کی رہائی اور نئے الیکشن پر گفت و شنید جاری رہنی چاہیے اور کچھ وقت کے بعد ان مطالبات کی بھی کوئی نہ کوئی صورت نکل آئے گی۔
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں عمران خان کی رہائی یا نو مئی کے مقدمات ختم ہونے کا امکان کم ہے۔
ان کے بقول عمران خان کی رہائی اب حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہی ہے کیوں کہ ان کے مقدمات عدالت میں ہیں اور وہیں سے ان کا فیصلہ ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحریکِ انصاف کو چاہیے کہ وہ پارلیمنٹ پر توجہ دے اور پارلیمنٹ کو فعال کرنے سے ہی نتائج ان کے حق میں نکل سکتے ہیں۔
رضا رومی کے بقول پہلے اجلاس کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت عمران خان سے رجوع کرے گی اور حکومت پی ٹی آئی کے مطالبات پر فوج سے مشاورت کرے گی۔
'مذاکرات کے حوالے سے عمران خان کا رویہ غیر یقینی ہے'
سلیم بخاری کہتے ہیں کہ مذاکرات کو لے کر عمران خان کا رویہ غیر یقینی ہے۔ ماضی میں نیب آرڈیننس پر ہونے والے مذاکرات پر انہوں نے اپنی حکومتی کمیٹی کو اچانک تحلیل کر دیا تھا۔ حال ہی میں محمود اچکزئی کو بات چیت کا مینڈیٹ دینے کے بعد واپس لے لیا۔
انہوں نے کہا کہ اب بھی جو اشارے مل رہے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہیں اور مذاکرات کو لے کر پی ٹی آئی کے اندر تقسیم پائی جاتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے حزبِ اختلاف کی سات رکنی کمیٹی میں سے صرف تین ارکان شریک ہوئے اور تین ارکان ملک میں ہوتے ہوئے دانستہ طور پر شریک نہیں ہوئے۔
پہلے مذاکراتی اجلاس میں حکومت کے تقریباً تمام اراکین اس اجلاس میں موجود تھے تاہم تحریکِ انصاف کی جانب سے اسد قیصر، صاحبزادہ حامد رضا اور راجہ ناصر عباس شامل تھے۔
قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب، سلمان اکرم راجہ، حامد خان اور صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیر اعلٰی علی امین گنڈا پور شریک نہیں ہوئے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ فریقین ایک دوسرے کی پیش کش اور مطالبات پر مذاکرات آگے بڑھائیں گے، کہیں بات چیت رکے گی اور پھر مذاکرات بحال ہوں گے۔ لیکن فوری طور پر کسی اتفاقِ رائے کی اُمید نہیں کی جا سکتی۔