سائنسدانوں نے متنبہہ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر خلائی تسخیر اور خلاء میں آبادکاری انسان کے بس میں نہیں ہوگی کیونکہ انسان کا خلاء میں بہت دیر تک قیام ممکن نہیں ہے۔
واشنگٹن —
انسان صدیوں سے خلائی دنیا کو تسخیر کرنا چاہتا ہے۔ گذشتہ ایک دہائی میں یہ خواہش زیادہ زور پکڑتی دکھائی دے رہی ہے اور مریخ پر انسانی آباد کاری کی پلاننگ بھی کی جا رہی ہے۔
مگر سائنسدانوں نے متنبہہ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر خلائی تسخیر اور خلاء میں آبادکاری انسان کے بس میں نہیں ہوگی کیونکہ انسان کا خلاء میں بہت دیر تک قیام ممکن نہیں ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدان خلابازوں کو چاند اور مریخ پر مشن کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں مگر وہ خلاء میں ان خلابازوں کی صحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سیارے پر رہتے ہیں جہاں صرف 70٪ پانی ہے۔ ہمارے جسم بھی تقریباً اتنا ہی پانی سے بنایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کشش ِ ثقل صفر رہ جانے پر پانی جسم میں اوپر کی طرف آتا ہے، جس سے انسانی کھوپڑی پر دباؤ بڑھتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ جب پانچ سال پہلے سائنسدان جن میں خلا باز بھی شامل تھے جب عالمی خلائی سٹیشن پر زیادہ دیر گزار کر آئے تو انہیں اپنی نظر کمزور محسوس ہوئی۔ اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان خلا بازوں کی آنکھوں کے ڈیلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ جبکہ تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ خلاء میں زیادہ وقت رہنے سے دائیں آنکھ کو بائیں آنکھ کی نسبت زیادہ نقصان پہنچا اور خواتین سے زیادہ مردوں کی آنکھیں زیادہ متاثر ہوئیں۔
اس سے قبل ماضی میں خلا میں زیادہ وقت گزارنے سے انسانی جسم میں موجود ہڈیوں کو نقصان پہنچنے کے متعلق شکایات موصول ہوئی تھیں۔
مگر خلاء میں جانے والوں کو کئی اور دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں کھانے پینے اور سونے سے متعلق شکایات شامل ہیں۔ مگر اس سب سے بھی بڑا مسئلہ تابکاری سے نمٹنے کا ہے۔
جب ہم زمین پر موجود ہوتے ہیں تو ہم زمین کے ماحول اور زمین کی مقناطیسی کشش کے باعث محفوظ رہتے ہیں جو کہ خلاء میں موجود نہیں۔
خلاء میں موجود ہونے کا ایک اور مسئلہ زمین سے ابلاغ کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر مریخ سے زمین پر بھیجے جانے والا پیغام کئی منٹ بعد زمین پہنچتا ہے اور زمین سے مریخ تک پیغام پہنچنے میں بھی وقت لگتا ہے۔
صحت کے مسائل کے علاوہ خلا میں موجود خلابازوں کے لیے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مسائل اس وقت شدید نوعیت اختیار کر سکتے ہیں جب خلاباز ٹیم کی شکل میں کسی مشن پر جاتے ہیں۔
امریکی خلائی ادارہ ناسا اس صدی کے تیسرے عشرے تک انسانوں کو مریخ پر آباد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس مشن میں تقریباً ڈھائی سال لگیں گے جو کہ خلاء میں اب تک رہنے والے زیادہ سے زیادہ عرصے کا چھ گنا زیادہ ہے۔
2015ء میں امریکی خلا باز اور روسی خلا نورد خلائی سٹیشن پر ایک سال کی مدت گزاریں گے۔ روسی خلا باز ویلری پولیاکوو اس سے قبل 1994ء میں خلاء میں ایک سال سے زیادہ وقت گزار چکے ہیں۔
مگر سائنسدانوں نے متنبہہ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر خلائی تسخیر اور خلاء میں آبادکاری انسان کے بس میں نہیں ہوگی کیونکہ انسان کا خلاء میں بہت دیر تک قیام ممکن نہیں ہے۔
نیو یارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق سائنسدان خلابازوں کو چاند اور مریخ پر مشن کے لیے بھیجنا چاہتے ہیں مگر وہ خلاء میں ان خلابازوں کی صحت سے متعلق مسائل کے حوالے سے فکر مند ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم ایک ایسے سیارے پر رہتے ہیں جہاں صرف 70٪ پانی ہے۔ ہمارے جسم بھی تقریباً اتنا ہی پانی سے بنایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کشش ِ ثقل صفر رہ جانے پر پانی جسم میں اوپر کی طرف آتا ہے، جس سے انسانی کھوپڑی پر دباؤ بڑھتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک وجہ ہو سکتی ہے کہ جب پانچ سال پہلے سائنسدان جن میں خلا باز بھی شامل تھے جب عالمی خلائی سٹیشن پر زیادہ دیر گزار کر آئے تو انہیں اپنی نظر کمزور محسوس ہوئی۔ اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ ان خلا بازوں کی آنکھوں کے ڈیلوں کو نقصان پہنچا تھا۔ جبکہ تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ خلاء میں زیادہ وقت رہنے سے دائیں آنکھ کو بائیں آنکھ کی نسبت زیادہ نقصان پہنچا اور خواتین سے زیادہ مردوں کی آنکھیں زیادہ متاثر ہوئیں۔
اس سے قبل ماضی میں خلا میں زیادہ وقت گزارنے سے انسانی جسم میں موجود ہڈیوں کو نقصان پہنچنے کے متعلق شکایات موصول ہوئی تھیں۔
مگر خلاء میں جانے والوں کو کئی اور دیگر مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں کھانے پینے اور سونے سے متعلق شکایات شامل ہیں۔ مگر اس سب سے بھی بڑا مسئلہ تابکاری سے نمٹنے کا ہے۔
جب ہم زمین پر موجود ہوتے ہیں تو ہم زمین کے ماحول اور زمین کی مقناطیسی کشش کے باعث محفوظ رہتے ہیں جو کہ خلاء میں موجود نہیں۔
خلاء میں موجود ہونے کا ایک اور مسئلہ زمین سے ابلاغ کا مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر مریخ سے زمین پر بھیجے جانے والا پیغام کئی منٹ بعد زمین پہنچتا ہے اور زمین سے مریخ تک پیغام پہنچنے میں بھی وقت لگتا ہے۔
صحت کے مسائل کے علاوہ خلا میں موجود خلابازوں کے لیے نفسیاتی مسائل میں مبتلا ہونے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مسائل اس وقت شدید نوعیت اختیار کر سکتے ہیں جب خلاباز ٹیم کی شکل میں کسی مشن پر جاتے ہیں۔
امریکی خلائی ادارہ ناسا اس صدی کے تیسرے عشرے تک انسانوں کو مریخ پر آباد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس مشن میں تقریباً ڈھائی سال لگیں گے جو کہ خلاء میں اب تک رہنے والے زیادہ سے زیادہ عرصے کا چھ گنا زیادہ ہے۔
2015ء میں امریکی خلا باز اور روسی خلا نورد خلائی سٹیشن پر ایک سال کی مدت گزاریں گے۔ روسی خلا باز ویلری پولیاکوو اس سے قبل 1994ء میں خلاء میں ایک سال سے زیادہ وقت گزار چکے ہیں۔