بین الاقوامی برادری کی جانب سےطالبان کو ایک سال سےزیادہ عرصے تک الگ تھلگ کیے جانے کے باوجو د انہیں ان کی سخت گیر اور بد سلوکی کی پالیسیوں سے باز رکھنے میں ناکامی سے مایوس ہو کر بین الاقوامی ادارے کہہ رہے ہیں کہ اب وقت آگیا ہے کہ مغربی ممالک اپنے سفارت کاروں کو افغان دارالحکومت کابل واپس بھیج دیں۔
تمام ممالک اگست 2020 میں کابل میں اقتدار پر قبضہ کرنے والی طالبان انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئےیہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ڈی فیکٹو لیڈرز پہلے ایک جامع حکومت بنائیں ، خواتین کے حقوق کا احترام کریں اور یہ یقینی بنائیں کہ ان کی سر زمین دہشت گردوں کا اڈا نہ بنے۔
لیکن 16 ماہ بعد ، طالبان اپنی سخت گیر پالیسیوں کے لیےاور بھی زیادہ پر عزم ہوگئےہیں اور وہ خواتین کےسفر اورحصول تعلیم کے حق پر پہلے سے زیادہ سخت پابندیاں عائد کر رہے ہیں اور اپنی انتظامیہ کو ملک کی اقلیتوں کے لیے کھولنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ان امدادی گروپس کے لیے جو بین الاقوامی امداد کے منقطع ہونے کے باعث ملک کو لپیٹ میں لینے والی بھوک اور غربت سے نمٹنے کی بھر پور کوشش کر رہے ہیں آخری دھچکا گزشتہ ماہ اس حکم نامے سے لگا جب افغان خواتین اسٹاف کو قومی اور بین الاقوامی این جی اوز کے لیے کام کرنےسےروک دیا گیا ۔
SEE ALSO: افغانستان:خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی سے60 لاکھ افراد کو قحط کا خطرہاف
بناہ گزینوں سے متعلق ناروے کے فلاحی ادارے نارویجن ریفیوجیز کونسل این آر سی کے سیکرٹری جنرل جین اگیلینڈ نے اتوار کوکابل میں طالبان عہدے داروں سے ملاقات کے بعد ٹویٹ کیا کہ ہمیں ملک کے نئے حکمرانوں کے ساتھ کام کرنے کےلیے اس بات کی ضرورت ہے کہ مغربی ملک اپنے سفارت کار افغانستان واپس بھیجیں۔
اگلیننڈ نے جو اس ہفتے کے شروع میں یہ انتباہ کر چکے تھے کہ خواتین امدادی کارکنوں پر پابندی سے 60 لاکھ لوگ قحط کا شکار ہو سکتے ہیں اور چھ لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہو سکتے ہیں، مزید کہا کہ ہم یہاں دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال میں بہت زیادہ تنہا ہیں ۔
این آر سی میں ایشیا اور یورپ کے امور سے متعلق ڈائریکٹر ایڈم کومبز نے وی او اے کو ایک انٹر ویو میں اس نکتے کو تقویت دیتے ہوئے کہا کہ ہم شدت سے محسوس کرتے ہیں کہ طالبان کے ڈی فیکٹو عہدے داروں کو الگ تھلگ کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔
انہوں نےکہا کہ افغانستان میں سفارتی موجودگی سے انسانی ہمدردی کی کارروائیوں کو آسان بنانے میں مدد ملے گی ۔
یہ خدشات موجود ہیں کہ کابل میں مغربی سفارت خانوں کو دوبارہ کھولنے سے طالبان حکومت کو اپنی قانونی حیثیت کا احساس ملے گا۔
امریکن اکیڈمی آف ڈپلومیسی کے صدر اور افغانستان میں سابق امریکی سفیر رونالڈ نیومن نے وی او اے کو بتایا کہ طالبان تقریباً یقینی طور پر امریکی سفارت کاروں کی واپسی کو اس بات کی علامت سمجھیں گے کہ امریکہ انہیں تسلیم کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس سے دوسرے ملکوں کو بھی اپنے سفارت کار واپس بھیجنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکہ اور بیشتر مغربی اتحادیوں کے برعکس، چین ، ایران ، روس اور کچھ دوسرے ملکوں نے اپنے طالبان میزبانوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیے بغیر کابل میں اپنے سفارت خانے بر قرار رکھے ہیں جب کہ بیجنگ ، تہران ، ماسکو ، اسلام آباد نے تو طالبان نمائندوں کو تسلیم بھی کر لیا ہے ۔
گزشتہ ہفتے کابل کے لیے چینی سفیر ، وانگ یو نے طالبان حکومت اور ایک چینی کمپنی کے درمیان تیل نکالنے کے ایک بڑے کانٹریکٹ کے دستخطوں کی تقریب میں شرکت کی ۔
امریکی اور یورپی عہدے دار طالبان رہنماؤں پر خواتین کی تعلیم اور کام کرنےکے حقوق سے متعلق اپنے سابقہ وعدوں سے پھر جانے کا الزام عائد کرتےہیں ۔ طالبان کے درمیان اپنے سپریم لیڈر ہبت اللہ اخندزادہ کے کچھ متنازع فتووں پر اندرونی طور پر اختلافات کی رپورٹس بھی مل رہی ہیں۔
اخوندزادہ طالبان کی نام نہاد امارت اسلامیہ کا سب کچھ دارالحکومت سے تقریباً 500 کلومیٹر دور صوبہ قندھار سے چلاتے ہیں ۔ وہ عوام اور غیر ملکی سفارت کاروں کے لیے ناقابل رسائی ہیں ، اور انہوں نے حال ہی میں انٹرنیشنل یونین آف مسلم اسکالرز کے ایک وفد سے ملنے سے انکار کر دیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
امریکن اکیڈمی آف ڈپلومیسی کے صدر اور افغانستان میں سابق امریکی سفیر رونالڈ نیومن کہتےہیں کہ میں نہیں سمجھتا کہ کابل میں غیر ملکی سفارت کاروں کی واپسی سےخواتین کےمسائل ، جامع حکومت یا دہشت گردی کےانسداد کے مسائل پر طالبان کے ساتھ اختلافات کےحوالے سے کوئی اہم نتیجہ نکلے گا۔
تاہم وہ تسلیم کرتےہیں کہ امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھلنے سے کچھ فائدے ہوں گے ۔ امریکہ پناہ کے متلاشیوں کے لیے ویزوں کی پراسسنگ کا کام کہیں زیادہ بہتر طریقے سے کر سکتا ہے اور سفارت کار دوسرے قونصلر مفادات کو دیکھ سکتےہیں
الگ تھلگ اور بین الاقوامی پابندیوں کےدباؤ کےحامل طالبان نے 1990 کی دہائی کے آخر میں القاعدہ کےرہنماؤں کو افغانستان میں پناہ دی ۔ اس بارےمیں خدشات بڑھ رہے ہیں کہ طالبان اب انسداد دہشت گردی سے متعلق اپنے ان وعدوں کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں یا پورا کرنا نہیں چاہتے جو انہوں نے 2020 میں امریکہ کے ساتھ اس معاہدے کیے تھے جس نے 2021 میں امریکی قیادت کےاتحاد کے انخلا کی راہ ہموار کی تھی ۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے وی او اے کوبتایا کہ اس وقت کابل میں امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھولنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ امریکی سفارت کار طالبان حکام سے براہ راست رابطہ کرنے کے لیے افغانستان کا سفر کیوں نہیں کر رہے، ترجمان نے کہا، ہمارے پاس کہنے کے لیے مزید کچھ نہیں ہے۔
(وی او اے ۔ اکمل داعی)