عالمی اقتصادی ادارے ورلڈ اکنامک فورم نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 2025 تک پاکستان کو درپیش 10 بڑے خطرات میں سے سب سے بڑا خطرہ خوراک کی کمی کا ہو گا جب کہ ملک کو اب بھی ڈیفالٹ کا خدشہ ہے۔
ورلڈ اکنامک فورم نے اپنی گلوبل رسکس 2023 رپورٹ میں بتایا کہ ڈیفالٹ کا سامنا کرنے والے دیگر ممالک میں ارجنٹائن، تیونس گھانا، کینیا ، مصر اور ترکی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان نے ان خطرات کو سامنے رکھ کر اپنی پالیسیاں اور ترجیحات نہیں بنائیں جس کی وجہ سے پاکستان کے لیے خطرات بدستور موجود ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اقتصادی میدان میں پاکستان بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اور آنے والے وقت میں اس میں شدت آنے کا خدشہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کا اس بحران سے نکلنے کے لیے اب تک کوئی روڈ میپ سامنے نہیں آرہا ۔
گلوبل رسک رپورٹ 2023 میں سائبر سیکیورٹی، دہشت گرد حملوں، مہنگائی اور معاشی بحران سمیت پاکستان کو اگلے دو سال میں درپیش 10 بڑے خطرات کا ذکر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان، بھارت اور افغانستان سمیت خطے کے دیگر ممالک کو درپیش علاقائی تنازعات میں پانی کے انفراسٹرکچر کو ہتھیار یا ہدف کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔فورم نے علاقائی اور ماحولیاتی خطرات کو بھی رسک قرار دیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں اقتصادی ترقی کی رفتار کم ہونے اور افراطِ زر کے باعث اشیا مہنگی ہونے سے لاکھوں افراد بھوک کا شکار ہو سکتے ہیں۔ خطے میں موجود دیگر ممالک آبی وسائل کو پاکستان کے خلاف علاقائی تنازعات میں بطور ہتھیار بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
ڈیٹا چوری، سائبر جاسوسی سمیت ڈیجیٹل سیکٹر میں اجارہ داری اور قرضوں کا بحران بھی 10 بڑے خطرات کی فہرست میں شامل ہے۔
اکنامک فورم کا کہنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرنے اور ماحول کوان کے مطابق ڈھالنے میں ناکامی قدرتی آفات کا باعث بن سکتی ہے۔
عالمی اقتصادی فورم نے عالمی سطح پر جیو اکنامک ٹینشن، انرجی اور فوڈ کرائسز کی بھی نشان دہی کی ہے۔
دوسری جانب ورلڈ بینک نے عالمی معاشی اثرات سے متعلق جاری رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کی معیشت کو ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب اور سیاسی بے یقینی نے بُری طرح متاثر کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں آنے والے تباہ کن سیلاب نے بڑے پیمانے پر زرعی زمین کو تباہ کر دیا جس سے ملک میں اجناس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ۔ پاکستان کو بیرونی ادائیگیوں سمیت مشکل معاشی حالات کا سامنا ہے، دسمبر 2022 میں مہنگائی کی شرح ساڑھے 24 فی صد رہی جو 1970 کی دہائی کے بعد بلند ترین سطح ہے۔
تجزیہ کار اور معاشی ماہر ڈاکٹر فرخ سلیم نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت پاکستان کی معاشی حالت دگرگوں ہے۔
اُنہوں نے کہا کہ گو کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے قرض ڈیپازٹ میں اضافہ کیا ہے۔ لیکن اگلے تین برسوں میں پاکستان کو 73 ارب ڈالرز کی ادائیگیاں کرنی ہیں جس کے لیے کوئی منصوبہ نظر نہیں آ رہا۔
فرخ سلیم نے کہا کہ پوری دنیا میں افراط زر ہے اور مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن بھارت اور بنگلہ دیش میں یہ آٹھ سے 10فی صد اور پاکستان میں 25 فی صد ہے۔ ایسے میں مہنگائی بڑھنے سے غربت میں ہی اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اس بارے میں جنہیں فیصلے کرنے ہیں وہ سیاست میں لگے ہوئے ہیں ، 22 کروڑ عوام کے مسائل کچھ اور ہیں اور فیصلہ سازوں کے مسائل کچھ اور ہیں۔ کرنسی کے ساتھ جو کچھ کیا جارہا ہے وہ بھی خطرناک ہے۔
فرخ سلیم کے بقول ٹیکسٹائل انڈسٹری بند ہورہی ہے، آئے دن مختلف لارج سکیل مینو فیکچررز کی فیکٹریاں بند ہونے کی اطلاعات آرہی ہیں اور جب یہ انڈسٹری بند ہوگی تو یقینی طور پر بے روزگاری کی وجہ سے غربت اور بھوک میں اضافہ ہوگا۔
فرخ سلیم کا کہنا تھا کہ بدقسمتی یہ ہے کہ اس وقت امید اور خواہشات بہت زیادہ ہیں، ہم دوسرے ممالک کی طرف دیکھ رہے کہ وہ ہمیں ایک سے دو بلین ڈالر دے دیں۔ لیکن 22 کروڑ عوام کا مستقبل صرف امیدوں اور خواہشات پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔
'معاشی خطرات پر پاکستان میں کام نہیں ہو رہا'
تجزیہ کار علی توقیر شیخ کہتے ہیں کہ ورلڈ اکنامک فورم کی طرف سے جن خطرات کا پاکستان کے بارے میں کہا گیا ہے ان میں سے کئی چیزوں پر پاکستان میں سرے سے کام ہی نہیں ہورہا۔
علی توقیر شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان کی سیکیورٹی کی ترجیحات آج بھی وہی ہیں جو آج سے کئی سال پہلے تھیں، پاکستان کی سیکیورٹی پالیسی بھارت کی مرکزیت اور مذہب کی ترجیحات کے مطابق ہیں۔ ان میں کئی سالوں کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آسکی۔
انہوں نے کہا کہ ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان کے حوالے سے جن ایشوز کا ذکر کیا ہے ان میں سے بعض کاپاکستان کی نیشنل سیکیورٹی پالیسی میں ذکر تک نہیں ہے۔ پاکستان نے اپنی اندرونی ترجیحات ان خطرات کی بنیاد پر مقررنہیں کیں۔
علی توقیر شیخ کا کہنا تھا کہ ورلڈ اکنامک فورم نے پاکستان میں مہنگائی کے باعث غربت کی بات تو کی ہے، لیکن بھوک کے جس خطرے کی بات گئی ہے اس پر انہیں اعتراض ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے علی توقیر شیخ کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ پاکستان میں فوڈ ریزرو بہت کم مدت کے لیے ہیں، صرف چند دنوں تک سپلائی نہ ہونے کی صورت میں بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پاکستان کا سماجی اور معاشرتی ڈھانچہ ایسا ہے کہ مشکل حالات کے باوجود بھی پاکستان میں بھوک کا خطرہ اس قدر شدید نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی سمیت کئی پالیسز پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے، اس رپورٹ میں عالمی سطح پر پانی سمیت دیگر چیزوں کو جس طرح انسانیت کے خلاف استعمال کرنے کے خطرہ کابتایا گیا ہے اس سے صرف بہتر سفارت کاری کے ذریعے ہی بچا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان کے وزیرِ خزانہ اسحاق ڈار ڈیفالٹ کے خدشات کی تردید کرتے رہے ہیں۔
مختلف مواقع پر اپنی پریس کانفرنسز میں اسحاق ڈار کا یہ موٗٔقف رہا ہے کہ چاہے جو بھی حالات ہو جائیں پاکستان کبھی ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔