|
ویب ڈیسک — کینیڈین حکومت کا بھارت سے کینیڈا میں سکھوں کے خلاف مبینہ پر تشدد مہم کے بعد سائبر حملوں اور امیگریشن پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ البتہ مبصرین کا کہنا ہے کہ تاحال اس کے فوری طور پر اثرات دونوں ملکوں کی باہمی تجارت پر نہیں پڑے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق دونوں ممالک میں سفارتی کشیدگی اس وقت مزید بڑھنے کے اندیشہ پیدا ہوا جب منگل کو کینیڈا کی ایک پارلیمانی کمیٹی میں سینئر حکومتی عہدیدار نے بھارت کے وزیرِ داخلہ امیت شاہ پر کینیڈا میں سکھوں کے خلاف مبینہ پر تشدد مہم کی پشت پناہی کا الزام عائد کیا۔
بھارت نے کینیڈا کے اعلیٰ عہدیدار کے الزامات کی تردید کی ہے۔
امیت شاہ بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی ہیں۔ ان پر الزامات سے کینیڈا اور بھارت میں جاری سفارتی تنازع مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
کینیڈا اور بھارت میں یہ تنازع ایک برس قبل 2023 میں اُس وقت شروع ہوا تھا جب بھارت کے علیحدگی پسند رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو گزشتہ برس جون میں مسلح افراد نے کینیڈا کے صوبے برٹش کولمبیا کے ایک گرودوارے کے باہر قتل کر دیا تھا۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو نے گزشتہ سال ستمبر میں اپنے ایک بیان میں بھارت کو اس قتل کا ذمے دار ٹھہرایا تھا۔ البتہ بھارت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ کینیڈا نے الزامات سے متعلق کبھی شواہد پیش نہیں کیے۔
جسٹن ٹروڈو کے الزامات کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کشیدہ ہوگئے تھے۔گزشتہ برس ہی بھارت نے کینیڈا سے نئی دہلی میں اپنے سفارتی عملے میں کمی کا مطالبہ کیا تھا جس پر کینیڈین حکومت نے 40 سفارت کاروں کو واپس بلا لیا تھا۔
رواں ماہ کے وسط میں بھی بھارت اور کینیڈا نے ایک دوسرے کے چھ، چھ سفارت کاروں کو ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔
SEE ALSO: کینیڈا کا بھارتی وزیرِ داخلہ پر سکھ علیحدگی پسند رہنما کو نشانہ بنانے کا الزامکینیڈا میں پولیس ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے الزام میں کم از کم چار افراد گرفتار بھی کر چکی ہے۔ پولیس کا کہنا تھا کہ تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ آیا گرفتار ملزمان کا بھارت کی حکومت سے کسی قسم کا تعلق تو نہیں۔
کینیڈا کے سگنلز انٹیلی جینس ایجنسی دیگر ممالک سے سائبر حملوں کے خطرات سے آگاہ کرتی ہے۔ اس انٹیلی جینس ایجنسی کا کہنا ہے کہ نئی دہلی ممکنہ طور پر پہلے ہی کینیڈا کے نیٹ ورکس پر جاسوسی کے لیے سائبر اسپیس میں خطرات پر مبنی سرگرمیوں میں متحرک تھا۔
کینیڈا کی 'کمیونی کیشن سیکیورٹی ایجنسی' کی چیف کیرولین زاویئر نے بدھ کو پریس کانفرنس میں کہا کہ کینیڈا اور بھارت میں تناؤ بڑھنے کا اندیشہ موجود ہے تو ممکن ہے کہ بھارت کینیڈا کے شہریوں کے خلاف سائبر اسپیس میں موجود خطرات کو تبدیل کرنا چاہتا ہو۔
کمیونی کیشن سیکیورٹی ایجنسی قبل ازیں بھارت کو ایک ابھرتا ہوا خطرہ قرار دے چکی ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
کینیڈا کے ایک تھینک ٹینک 'ایشیا پیسیفک فاؤنڈیشن' کی نائب صدر وینا نادجیبولا کا 'رائٹرز' سے گفتگو میں کہنا تھا کہ کینیڈا کا سکھ رہنما نجر کے قتل کی مزید تفصیلات سامنے آنے تک سفارتی محاذ پر مزید اقدامات کا امکان نہیں ہے۔
ان کے بقول کینیڈا کی کابینہ کے مزید ارکان بھی نیشنل سیکیورٹی کمیٹی میں اس معاملے پر پیش ہوں گے اور ان کے بیانات لیے جائیں گے اور ابھی گرفتار ہونے والے چار افراد کا عدالتی ٹرائل بھی شروع ہونا باقی ہے۔
ان کے بقول اس عمل کے دوران اگر کسی بھی سطح پر کسی ایسی شخصیت پر الزامات عائد کیے جاتے ہیں جو بھارت میں مقیم ہے تو اس سے اس شخص کی حوالگی کا معاملہ شروع ہوگا جس میں کئی برس لگ سکتے ہیں۔ اور ظاہر ہے بھارت کی جانب سے اس میں تعاون کا بھی امکان نہیں ہے۔
کینیڈا کے وزیرِ اعظم جسٹن ٹروڈو کے ماتحت کام کرنے والے افراد اور وزارتِ خارجہ کے عملے نے اس معاملے پر مزید کوئی تبصرہ نہیں کیا اور نہ یہ وضاحت سامنے آئی ہے کہ کینیڈا آنے والے وقت میں مزید کیا اقدامات کر سکتا ہے۔
کینیڈا میں سب سے زیادہ کام کرنے والے افراد اور طلبہ بھارت سے ہی آتے ہیں ۔ البتہ حالیہ الزامات کے بعد ویزہ کی درخواستیں بڑے پیمانے پر مسترد ہونے کی رپورٹس سامنے آ رہی ہیں۔
بھارت اور کینیڈا میں کشیدگی سے متعلق مزید جانیے
سکھ رہنما کے قتل پر کینیڈا اور بھارت میں بڑھتی کشیدگی: معاملہ کیا ہے؟کینیڈا کا بھارت پر داخلی سیاست میں مداخلت کا بھی الزام، نئی دہلی کی تردیدکینیڈا سے نکالے جانے والےبھارتی ہائی کمشنر کا سکھ رہنما کے قتل میں ملوث ہونے سے انکار بھارتی انٹیلی جنس کے سابق عہدہ دار پرایک امریکی شہری کے قتل کی سازش کے الزام میں فرد جرم عائدکینیڈا کے ساتھ کشیدگی: بھارتی پنجاب کے شہریوں کو اپنے مستقبل کی فکرکینیڈا کے امیگریشن منسٹر کہہ چکے ہیں کہ بھارت میں ستمبر 2023 کے بعد سے کینیڈا کے صرف چار امیگریشن افسران موجود ہیں۔ عملے میں کمی کے سبب ویزا پروسیس کا عمل طویل ہوتا جا رہا ہے۔
ان کے بقول اس کا مطلب ہے کہ دونوں ممالک میں لوگ بہت کم تعداد میں سفر کر رہے ہیں۔
بھارت کینیڈا کا 10واں بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ بھارت بھی یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ بھی نہیں چاہتا کہ تجارت متاثر ہو۔
غیر سرکاری اداروں نے بھی کہا ہے کہ گزشتہ برس اکتوبر کے بعد دونوں ممالک میں تجارت پر کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔
کینیڈا دالیں برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے اور اس کی دالوں کی ایک بڑی مارکیٹ بھارت بھی ہے۔
کینیڈا کے ’ایگری فوڈ الائنس‘ کے ڈائریکٹر مائیکل ہاروی کا کہنا ہے کہ کینیڈا اور بھارت میں تجارت کے بہت مواقع موجود ہیں۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)