کینیڈا کی وزیرِ خارجہ میلانی جولی نے بدھ کو ایک بیان میں کہا ہے کہ دنیا بھر کی ایک درجن سے زیادہ خواتین وزرائے خارجہ کینیڈا کی میزبانی میں ایران میں مظاہرین کے خلاف کیے گئے اقدامات پرتبادلۂ خیال کے لیے ورچوئل اجلاس میں شرکت کر رہی ہیں۔
گزشتہ ماہ ایران کے دارالحکومت تہران میں اخلاقی پولیس کی حراست میں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت نے پورے ملک کو بد امنی کی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
پولیس نے مہسا امینی کو اس الزام میں گرفتار کیا تھا کہ انہوں نے حکومت کے مقرر کردہ کوڈ کے مطابق سر کے بالوں کو ڈھانپا ہوا نہیں تھا۔
کینیڈا کی وزارتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ میلانی جولی اور 14 دیگر خواتین وزرائے خارجہ کا ورچوئل اجلاس جمعرات کو ہوگا ، جس میں ایرانی ثقافت سے تعلق رکھنے والی خواتین کو سنا جائے گاجب کہ ایران میں انسانی حقوق کی صورتِ حال کو زیرِ بحث لایا جائے گا۔
اجلاس میں ایران کے شہریوں کے لیے اجتماعی مدد کی کوشش کو مربوط کرنے اور اس میں اضافے پر بات چیت ہو گی۔
میلانی جولی نے کہا ہے کہ میں اور میری ہم منصب خواتین ایک واضح پیغام بھیجنے کے لیے جمع ہو رہی ہیں اور وہ یہ ہے کہ ایران کی حکومت کو عوام، خاص طور پر خواتین کے خلاف جارحیت سمیت ہر قسم کا تشدد ختم کر دینا چاہیے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کینیڈا ایران کے دلیر اور بہادر شہریوں کے ساتھ کھڑا ہے، جو اپنے انسانی حقوق اور اپنی ماؤں، بیویوں اور بیٹیوں کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں۔
ایران کی حکومت ان ممالک پر مستقل تنقید کر رہی ہے جو اس احتجاج کے حامی ہیں۔ تہران نے ان ممالک کی حکومتوں کے بیانات کو اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ نے ایک سرکاری ذریعے کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ جرمنی، چلی، نیوزی لینڈ اور ناروے کی وزرائے خارجہ ان 14 خواتین وزرائے خارجہ میں شامل ہیں، جو کینیڈا کی میزبانی میں ورچوئل کانفرنس شامل ہوں گی۔
’رائٹرز‘ نے بتایا ہے کہ اجلاس میں شریک ہونے والے دوسرے متوقع ملکوں میں البانیہ ، سینٹرل افریقین ری پبلک ، چلی ، آئس لینڈ، کوسوو، لیبیا، منگولیا، پناما سمیت دیگر ممالک شامل ہیں۔
واضح رہے کہ امریکہ اور کینیڈا ان ممالک میں شامل ہیں جنہوں نے ایران کے خلاف پابندیاں عائد کی ہیں۔
SEE ALSO: مختلف ممالک میں ایرانی مظاہروں کی حمایت میں مارچمیلانی جولی نے ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بدھ کو اضافی پابندیوں کا اعلان بھی کیا ہے، جن میں ایران کے نائب وزیرِ داخلہ ماجد میر احمدی سمیت چار اداروں اور چھ افراد کو ہدف بنایا گیا۔
ایران میں حکومت نے ملک میں جاری احتجاج کو مذہبی طبقے کی حکمرانی کے خلاف احتجاج کے بجائے کرد اقلیت کے علیحدگی پسندوں کی شورش کے حصے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس سے ملک کے اتحاد کو خطرات لاحق ہیں۔
اس رپورٹ میں کچھ مواد خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لیا گیا ہے۔