کینیڈا کی پارلیمنٹ کے ارکان کو ’پینک بیٹن‘ فراہم کیے جا رہے ہیں تاکہ وہ خطرے کی صورت میں بٹن دبا کر فوری مدد کے لیے پولیس یا سیکیورٹی اہل کاروں کو طلب کر سکیں۔
’پینک بٹن‘ ایک چھوٹا سا آلہ ہے۔ کوئی ایسا شخص جسے خطرات کا خدشہ ہو، بوقت ضرورت اس کا بٹن دبا دیتا ہے، جس سے وائرلیس کے ذریعے پولیس یا سیکیورٹی اہل کاروں کو ’مدد‘ کا پیغام مل جاتا ہے اور وہ موقع پر پہنچ جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کینیڈا کے ارکان پارلیمنٹ کو ’پینک بٹن‘ فراہم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اس کی وجہ کچھ ارکان اسمبلی اور حکومتی عہدے داروں کو نامعلوم افراد سے ملنے والی دھمکیاں ہیں۔ حالیہ ہفتوں میں عوامی تحفظ کے وزیر مارکو مندیسنو کو بھی آن لائن دھمکی ملی تھی کہ انہیں ہلاک کر دیا جائے گا۔
اس دھمکی کی ٹائمنگ بڑی اہم ہے۔ یہ دھمکی ایک ایسے وقت میں دی گئی جب انہوں نے اسلحے کے ذریعے بڑھتے ہوئے تشدد کے واقعات پر قابو پانے کے لیے ہتھیار رکھنے پر پابندیوں کے سلسلے میں قانون سازی کی تجویز پیش کی تھی۔
اسلحے سے تشدد کے واقعات امریکہ میں مسلسل بڑھ رہے ہیں اور آئے روز عوامی مقامات، شاپنگ مالز اور تعلیمی اداروں میں اندھا دھند فائرنگ میں ہلاکتوں کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔ انسانی حقوق کی اکثر تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ ہتھیار رکھنے کی آزادی ہے۔ امریکی آئین کے تحت ہر شہری ہتھیار خرید سکتا ہے اور اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔
SEE ALSO: امریکی سپریم کورٹ کے جج کے گھر کے قریب سےمسلح شخص گرفتار، اقدامِ قتل کا مقدمہ درجانسانی حقوق کے اکثر گروپس اور ڈیموکریٹک پارٹی ہتھیاروں کی آزادنہ خرید و فروخت کو محدود کرنے کے لیے قانون سازی کرنا چاہتی ہے، لیکن اسے مضبوط گن لابی کی مخالفت کا سامنا ہے۔
کینیڈا کو بھی اس سے ملتی جلتی صورت حال درپیش ہے اور وہ ہتھیاروں پر کنڑول کرنا چاہتا ہے۔ پبلک سیفٹی کے وزیر مارکو مندیسنو کہتے ہیں کہ صورت حال بہت تشویش ناک ہے۔ ہم آن لائن بہت نفرت انگیز اور زہریلا مواد دیکھ رہے ہیں جس کا نتیجہ بعد ازاں تشدد کی صورت میں نکلتا ہے اور اس سے نفرتوں کو بڑھاوا ملتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ایسا ماحول چاہیے جہاں ہم انتشار کی سطح دیکھے بغیر، تصادم اور دھمکیوں سے دور رہتے ہوئے بھرپور طریقے سے بحث مباحثہ کر سکیں۔
کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کو بھی سیکیورٹی کے حوالے سے کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پچھلے سال ستمبر میں ایک انتخابی ریلی کے دوران ان پر پتھراؤ ہو چکا ہے۔اس ریلی کے دوران کئی مقامات پر مظاہرین نے ان کے خلاف نسلی امتیاز پر مبنی نعرے بازی کی۔
بائیں بازو کی ایک چھوٹی پارٹی کے لیڈر جگمیت سنگھ کے خلاف بھی گزشتہ ماہ ایک تقریب کے باہر ایک برہم ہجوم نے نعرے لگائے، انہیں دہشت گرد کہہ کر پکارا اور انہیں موت کا حق دار قرار دیا۔
SEE ALSO: امریکہ: اسلحہ کنٹرول کی مخالف ’گن لابی‘ کتنی بااثر ہے؟جگمیت نے اگلے روز ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ یہ میری زندگی کے بدترین تجربات میں سے ایک تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے سیاست میں اتنی خلیج اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
منگل کے روز، مینڈیسنو نے کہا کہ سیاست دانوں کے لیے خطرات بڑھ رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے لیے ’پینک بٹن‘ کی ضرورت محسوس کی گئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ الارم ایک اضافی ڈھال فراہم کرے گا اور اس کے ذریعے کینیڈا بھر میں ہر جگہ پولیس کو چوکس کیا جا سکے گا۔
اس کے علاوہ پارلیمنٹ کی سیکورٹی کے سربراہ نے قانون سازوں کو یہ پیش کش بھی کی ہے کہ وہ ان کے اور ان کے عمل کے لیے خود حفاظتی تربیت کا انتظام کر سکتے ہیں۔
وزیر اعظم ٹروڈو کا کہنا ہے کہ لوگوں میں غصے، برہمی اور نفرت کی صورت حال کے پیش نظر اب یہ یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ جو کوئی بھی سیاست کے میدان میں ہے، اسے اپنی کمونیٹی کی خدمت کے لیے تحفظ فراہم ہو تاکہ وہ محفوظ رہے۔