شام میں حکومت مخالف باغیوں کے زیرِ قبضہ شہر اِدلب میں ہونے والے ایک کار بم دھماکے میں کم از کم 23 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
کسی تنظیم نے اتوار کو ہونے والے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے جس میں درجنوں افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
شام میں تشدد کی صورتِ حال پر نظر رکھنے والی برطانوی تنظیم 'سیرین آبزرویٹری' کے مطابق دھماکے کا نشانہ شامی حزبِ اختلاف کی ایک تنظیم کا صدر دفتر تھا جو ادلب کے مرکزی علاقے میں واقع ہے۔
دھماکے سے تنظیم کے دفتر سمیت کئی عمارتوں کو شدید نقصان پہنچا جب کہ جائے واقعہ پر موجود کئی گاڑیاں بھی تباہ ہوگئیں۔
ادلب کا صوبہ شام کے شمالی حصے میں باغیوں کے زیرِ قبضہ آخری سب سے بڑا علاقہ ہے جس پر شامی حزبِ اختلاف اور باغیوں کے کئی دھڑوں کا قبضہ ہے۔
صوبے کے علاقے کئی باغی دھڑوں کے درمیان تقسیم ہیں جن میں سے سب سے مضبوط اور بڑا دھڑا القاعدہ سے منسلک ایک باغی تنظیم کا ہے۔
شامی فوج اِدلب کی جانب پیش قدمی کر رہی ہےاور اتوار کو ہی سرکاری فوج نے سِنجار نامی ایک قصبے کا کنٹرول باغیوں کے قبضے سے چھیننے کا دعویٰ کیا تھا۔
شامی فوج کو اپنی کارروائیوں میں روس کی فضائی مدد بھی حاصل ہے جس کے جنگی طیارے وقتاً فوقتاً باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر بمباری کرتے رہتے ہیں۔
'سیرین آبزوریٹری' کے مطابق سنجار پر قبضے کے نتیجے میں شامی فوج قصبے سے 12 میل شمال میں واقع ابو ظہور نامی فضائی اڈے کی جانب بآسانی پیش قدمی کرنے کے قابل ہوگئی ہے جس پر باغیوں کا قبضہ ہے۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق اِدلب میں باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں 25 لاکھ سے زائد عام شہری موجود ہیں جن میں 10 لاکھ وہ پناہ گزین ہیں جو مختلف علاقوں میں جاری لڑائی کے باعث ہجرت کرکے ادلب کے مختلف علاقوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔