'پی ٹی آئی کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی پابندی نہیں'

پاکستان کے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے اس تاثر کو رد کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ اس بارے میں کوئی ابہام نہیں ہونا چاہئے کہ الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ تمام سیاسی جماعتوں کو آئندہ انتخابات میں اپنے امیدوار کھڑے کرنے کی اجازت ہوگی۔

ان کے بقول "یہ سوال ہی کیوں اٹھایا جارہا ہے کہ پی ٹی آئی کو انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت ہوگی یا نہیں۔ کسی سیاسی جماعت کو بھی سیاسی سرگرمیوں سے روکا نہیں جارہا ہے۔"

خیال رہے کہ سیاسی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں یہ تبصرے کیے جا رہے ہیں کہ 9 مئی کے واقعات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

تاہم نگران وزیر اعظم نے 9 مئی کے واقعات کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف اقدامات کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ کسی سیاسی جماعت کو بھی تخریب کاری کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔

SEE ALSO: پی ٹی آئی کا 90 روز میں انتخابات کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا اعلان

ان کے بقول 9 مئی کے واقعات ہمارے سماجی نظام پر حملہ تھا اور کوئی سماج افراتفری کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سخت اقدامات اٹھانا، افرا تفری سے بہتر ہیں۔

خیال رہے کہ 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں پرتشدد مظاہرے ہوئے اور پی ٹی آئی کارکنوں کی جانب سے فوجی تنصیبات پر حملے کیے گئے تھے۔ ان واقعات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کے متعدد رہنماء مقدمات اور قانونی کاروائی کا سامنا کررہے ہیں۔

تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات ہتھیار ڈالنے پر ہی ہو سکتے ہیں

نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ شدت پسند گروہ کے ساتھ بات صرف ہتھیار ڈالنے کی صورت میں ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کو مذاکرات سے قبل یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اس کے ریاست کے خلاف حملے غلط تھے اور اس مقصد کے لیے شدت پسند گروہ نے مذہب، قومیت اور ملک کے نام کا غلط استعمال کیا۔

SEE ALSO:

کیا امریکہ اور نیٹو کا افغانستان میں چھوڑا ہوا اسلحہ پاکستان اسمگل ہو رہا ہے؟

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد افغان طالبان کی حکومت آنے سے ٹی ٹی پی کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ امریکہ اپنے مفادات ختم ہونے پر خطے سے نکلا ہے جب کہ پاکستان کو یہیں رہنا ہے اور اپنی سرزمین کی حفاظت کرنی ہے۔

ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے سوال پر نگران وزیر اعظم نے کہا کہ یہ فیصلہ صرف عسکری قیادت کا نہیں تھا بلکہ اس وقت کی سیاسی قیادت کی خواہش پر شدت پسند گروہ سے بات چیت کی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت اس طرف نہیں جانا چاہتے کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کےفیصلے کا ذمہ دار کون ہے بلکہ وہ اپنی توجہ امن و امان کی صورت حال میں بہتری لانے پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔

خیال رہے کہ سابق وزیراعظم اور اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے دور میں افغان طالبان کی میزبانی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کیے گئے تھے تاہم وہ ناکام رہے۔

امریکہ کا چھوڑا ہوا اسلحہ طالبان حملوں میں استعمال کر رہے ہیں

نگراں وزیرِ اعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ افغانستان میں امریکہ کی فوج کے چھوڑے ہوئے جدید اسلحے اور سازوسامان کی بنا پر عسکریت پسند گروہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز پر متواتر حملے کررہے ہیں۔

SEE ALSO: افغانستان: 'غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد سے ٹی ٹی پی کی توجہ پاکستان پر ہے'

انہوں نے کہا کہ عسکریت پسند گروہوں کے پاس جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی صرف خطے اور پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے لیے خطرہ ہے۔

یاد رہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان کی فوج اور دیگر فورسز کے خلاف عسکریت پسندوں کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستانی اداروں کے اہل کاروں کو خاص طور پر افغانستان کی سرحد سے قریب علاقوں میں زیادہ نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ وہ یہ نہیں کہتے کہ نیٹو اور امریکہ نے یہ اسلحہ خطے کو غیر مستحکم کرنے کے لیے چھوڑا ہے لیکن وہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس مسئلے کے حل کے لیے ہمیں مل کر کام کرنا چاہئے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اپنی معلومات کی بنیاد پر وہ کہہ سکتے ہیں کہ اس سلسلے میں پاکستان پہلے سے امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے ساتھ اس خطرے سے نمٹنے پر بات چیت کررہا ہے۔

خیال رہے کہ امریکہ اور اتحادی ممالک نے اگست 2021 میں افغانستان سے فوج کا انخلا مکمل کیا تھا جب کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے دوران ہی اس وقت افغان طالبان نے امریکی حمایت یافتہ افغان حکومت کا خاتمہ کرتے ہوئے ملک کا کنٹرول ایک بار پھر سنبھال لیا تھا۔

امریکی وزارتِ دفاع کی گزشتہ برس جاری کی گئی ایک رپورٹ کے مطابق امریکی سات ارب 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا فوجی سازوسامان سابق افغان حکومت کے اسٹاک میں موجود تھا۔