نگراں وزیراعظم کے نام پرغورکے لئے 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے مسلسل تین دن تک اجلاس ہوئے۔ اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا گیا ہے جسے دو دن میں انھی چار نامزد اْمیدواروں میں سے کسی ایک کو نگراں وزیراعظم نامزد کرنا ہے
پاکستان میں نگراں وزیراعظم کے چناوٴ میں پارلیمانی کمیٹی بھی ناکام ہو گئی اور معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا ہے جس نے 48 گھنٹوں کے اندر نگراں وزیراعظم کا فیصلہ کرنا ہے۔
گزشتہ پارلیمنٹ نے پہلی بار پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مشاورت سے نگراں وزیراعظم کا انتخاب کریں۔حکومت اور اپوزیشن نے اپنی اپنی جانب سے دو ، دو نام دیئے تھے۔ پہلے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے تین روز تک مشاورت کی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا جس کے بعدچار نام پارلیمانی کمیٹی کو دیئے گئے۔
چار ناموں پر حکومتی اور اپوزیشن کے چار ، چار ارکان پر مشتمل آٹھ رکنی کمیٹی نے تین روز تک مشاورت کی ، جمعہ کو ان کے پاس آخری دن تھا ، پورے دن میں تین اجلاس ہوئے تاہم چار میں سے ایک نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔
رات گئے پریس کانفرنس سے خطاب میں پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے نگراں وزیراعظم کی تلاش میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی سب سے بڑی وجہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس اختیارات کا نہ ہونا بتائی۔
پیپلزپارٹی کے رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک کا کہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل دو اڑتالیس اے کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے پاس اختیارات محدود تھے۔ اسے جو چار نام دیئے گئے تھے ان پر ہی غور کرنا تھا۔
فاروق ایچ نائیک کے بقول آنے والے والی پارلیمنٹ سے استدعا کرینگے کہ وہ اس شق کی خلا کو پر کرے اور اس میں مزید ترمیم کی جائے۔ تین دن تک صرف چار ناموں پر بار بار مشاورت سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کمیٹی کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے بھی نام شامل کر سکے۔
حکومتی ارکان چوہدری شجاعت حسین اور بشیر بلور کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ سیاستدانوں کو پہلی بار یہ موقع ملا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔حکومتی رکن خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وہ اسے ناکامی نہیں کہیں گے ، اگر الیکشن کمیشن معاملے کو حل کرتا ہے تو وہ بھی اسی پارلیمنٹ کے دور میں وجود میں آیا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا کسی فریق نے لچک نہیں دکھائی تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں کر دیں، کچھ آگے جا کر کریں گے۔
اپوزیشن کے رکن سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے پاس تین روز بہت زیادہ ہیں ، مشاورت کیلئے ایک ، دو روز بھی کافی ہیں۔ تین روز میں اچھے ماحول میں گفتگو ہوتی رہی ، پہلا تجربہ تھا مستقبل میں بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔اپوزیشن کے ہی خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ چاروں نام انتہائی قابل احترام تھے۔ الیکشن کمیشن کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ سب کو تسلیم ہو گا۔
اپوزیشن کے اراکین پرویز رشید اور سردار یعقوب نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی بھر پور اور ایماندارانہ کوشش کی ، آئندہ کمیٹی کو مزید آزادی اور اختیارات دیئے جائیں تو بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔
آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے جمعہ کو مذاکرات کے تین دور ہوئے اور رات کو شروع ہونے والی مشاورت کے بعد کمیٹی کے اراکین نے بتایا کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تاہم پارلیمانی کمیٹی میں شامل حکومت اور اپوزیشن کے نامزد اراکین نے اس سے قبل اس امید کا اظہار کیا تھا کہ کمیٹی نگراں وزیراعظم کو نامزد کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن ایسا نا ہو سکا۔
نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو جبکہ حزب اختلاف نے رسول بخش پلیجو اور جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے نام تجویز کیے تھے۔
اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا گیا ہے جسے دو دن میں انھی چار نامزد اْمیدواروں سے کسی ایک کو بطور نگراں وزیراعظم کے نامزد کرنا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی 16 مارچ کو تحلیل کی گئی تھی۔ پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو تین دنوں میں نگراں وزیراعظم نے نام پر اتفاق کرنا تھا لیکن اْن کے درمیان عدم اتفاق کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں چلا گیا تھا جس نے جمعہ کو اپنا فیصلہ سنایا۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اور اسی اسمبلی کی طرف سے حال میں آئین میں کی گئی ترمیم کے مطابق نگراں وزیراعظم کے چناوٴ کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ پارلیمنٹ نے پہلی بار پاکستان میں حکومت اور اپوزیشن کو یہ اختیار دیا تھا کہ وہ مشاورت سے نگراں وزیراعظم کا انتخاب کریں۔حکومت اور اپوزیشن نے اپنی اپنی جانب سے دو ، دو نام دیئے تھے۔ پہلے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر نے تین روز تک مشاورت کی لیکن کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا جس کے بعدچار نام پارلیمانی کمیٹی کو دیئے گئے۔
چار ناموں پر حکومتی اور اپوزیشن کے چار ، چار ارکان پر مشتمل آٹھ رکنی کمیٹی نے تین روز تک مشاورت کی ، جمعہ کو ان کے پاس آخری دن تھا ، پورے دن میں تین اجلاس ہوئے تاہم چار میں سے ایک نام پر اتفاق نہ ہو سکا۔
رات گئے پریس کانفرنس سے خطاب میں پارلیمانی کمیٹی کے ارکان نے نگراں وزیراعظم کی تلاش میں ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے اس کی سب سے بڑی وجہ پارلیمانی کمیٹی کے پاس اختیارات کا نہ ہونا بتائی۔
پیپلزپارٹی کے رکن کمیٹی فاروق ایچ نائیک کا کہناتھا کہ آئین کے آرٹیکل دو اڑتالیس اے کے تحت پارلیمانی کمیٹی کے پاس اختیارات محدود تھے۔ اسے جو چار نام دیئے گئے تھے ان پر ہی غور کرنا تھا۔
فاروق ایچ نائیک کے بقول آنے والے والی پارلیمنٹ سے استدعا کرینگے کہ وہ اس شق کی خلا کو پر کرے اور اس میں مزید ترمیم کی جائے۔ تین دن تک صرف چار ناموں پر بار بار مشاورت سے نتیجہ اخذ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کمیٹی کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ اپنی مرضی سے بھی نام شامل کر سکے۔
حکومتی ارکان چوہدری شجاعت حسین اور بشیر بلور کا کہنا تھا کہ افسوس کی بات ہے کہ سیاستدانوں کو پہلی بار یہ موقع ملا تاہم وہ کامیاب نہ ہو سکے۔حکومتی رکن خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ وہ اسے ناکامی نہیں کہیں گے ، اگر الیکشن کمیشن معاملے کو حل کرتا ہے تو وہ بھی اسی پارلیمنٹ کے دور میں وجود میں آیا۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ کیا کسی فریق نے لچک نہیں دکھائی تو ان کا کہنا تھا کہ کچھ باتیں کر دیں، کچھ آگے جا کر کریں گے۔
اپوزیشن کے رکن سردار مہتاب احمد خان کا کہنا تھا کہ کمیٹی کے پاس تین روز بہت زیادہ ہیں ، مشاورت کیلئے ایک ، دو روز بھی کافی ہیں۔ تین روز میں اچھے ماحول میں گفتگو ہوتی رہی ، پہلا تجربہ تھا مستقبل میں بہتر نتائج سامنے آئیں گے۔اپوزیشن کے ہی خواجہ سعد رفیق کا کہنا تھا کہ چاروں نام انتہائی قابل احترام تھے۔ الیکشن کمیشن کا جو بھی فیصلہ ہو گا وہ سب کو تسلیم ہو گا۔
اپوزیشن کے اراکین پرویز رشید اور سردار یعقوب نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی نے اپنی بھر پور اور ایماندارانہ کوشش کی ، آئندہ کمیٹی کو مزید آزادی اور اختیارات دیئے جائیں تو بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔
آٹھ رکنی پارلیمانی کمیٹی کے جمعہ کو مذاکرات کے تین دور ہوئے اور رات کو شروع ہونے والی مشاورت کے بعد کمیٹی کے اراکین نے بتایا کہ وہ کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے تاہم پارلیمانی کمیٹی میں شامل حکومت اور اپوزیشن کے نامزد اراکین نے اس سے قبل اس امید کا اظہار کیا تھا کہ کمیٹی نگراں وزیراعظم کو نامزد کرنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن ایسا نا ہو سکا۔
نگراں وزیراعظم کے لیے حکومت نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر ڈاکٹر عشرت حسین اور جسٹس ریٹائرڈ میر ہزار کھوسو جبکہ حزب اختلاف نے رسول بخش پلیجو اور جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد کے نام تجویز کیے تھے۔
اب یہ معاملہ الیکشن کمیشن میں چلا گیا ہے جسے دو دن میں انھی چار نامزد اْمیدواروں سے کسی ایک کو بطور نگراں وزیراعظم کے نامزد کرنا ہے۔
پاکستان کی قومی اسمبلی 16 مارچ کو تحلیل کی گئی تھی۔ پہلے مرحلے میں وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کو تین دنوں میں نگراں وزیراعظم نے نام پر اتفاق کرنا تھا لیکن اْن کے درمیان عدم اتفاق کے بعد یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں چلا گیا تھا جس نے جمعہ کو اپنا فیصلہ سنایا۔
ملک کی تاریخ میں پہلی مرتبہ قومی اسمبلی نے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی اور اسی اسمبلی کی طرف سے حال میں آئین میں کی گئی ترمیم کے مطابق نگراں وزیراعظم کے چناوٴ کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جا رہا ہے۔