منگل کی شام سے یمن میں متحارب فریقین اپنے ہتھیار چھوڑ کر پانچ روزہ عارضی جنگ بندی پر عمل درآمد شروع کریں گے۔ عارضی جنگ بندی کا مقصد ملک میں انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر انتہائی ضروری امداد کی فراہمی ممکن بنانا ہے۔
حوثی باغیوں، فوج اور سعودی قیادت میں قائم فوجی اتحاد، تینوں فریقین نے جنگ بندی پر عمل کا وعدہ کیا ہے۔ تاہم اس پر عملدرآمد کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کیونکہ پیر تک سخت لڑائی جاری تھی۔
جنگ بندی شروع ہونے سے قبل اقوامِ متحدہ کی امدادی امور کی سربراہ ویلری ایموس نے فریقین سے تشدد روکنے کی اپیل کی تاکہ شہریوں کو خوراک، طبی سہولیات اور صاف پانی کی فراہمی اور لوگوں کی محفوظ مقامات تک منتقلی ممکن بنائی جا سکے۔
ایک بیان میں ایموس نے کہا کہ ’’یمن میں خراب ہوتی انسانی صورتحال میں خطرے سے دوچار لاکھوں شہری لڑائی میں پھنسے ہوئے ہیں اور زندگی بچانے والی امداد تک رسائی نہیں کر پا رہے، اس میں ضروری ہے کہ جنگ میں توقف کو یقینی بنایا جائے۔‘‘
اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ یمن میں جنگ میں 1,400 سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔
اس جنگ میں حوثی باغی ملوث ہیں جنہوں نے گزشتہ برس ستمبر میں دارالحکومت صنعا کا کنٹرول سنبھال لیا تھا اور پھر اس سال جنوب کی طرف پیش قدمی شروع کر دی تھی جس کے باعث صدر عبدالربو منصور ہادی فرار ہو کر سعودی عرب چلے گئے تھے۔ سعودی عرب اور اس کے حامیوں نے اس سال مارچ کے آخر میں صدر ہادی کی درخواست پر حوثیوں کے خلاف فضائی حملے شروع کیے تھے۔