امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز ریاست اوکلاہوما کے شہر ٹلسا میں سیاہ فاموں کے قتل عام کے 100 برس مکمل ہونے کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں شرکت کی۔
وہ پہلے امریکی صدر ہیں جنہوں نے 31 مئی، سن 1921ء کے المناک واقعے کی یاد میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی۔ 100 برس قبل ایک سفید فام ہجوم نے سیاہ فام افراد پر حملہ کیا تھا اور اس واقعے میں 300 افراد ہلاک جب کہ 10 ہزار بے گھر ہوئے تھے۔
صدر بائیڈن نے ان فسادات کی یاد منانے کے لیے گرین وڈ کلچرل سینٹر میں منعقد ہونے والی اس تقریب سے خطاب کیا اور حیات پسماندگان سے ملاقات کی۔
اس موقع پر صدر بائیڈن نے کہا کہ ''چوں کہ تاریخ خاموش ہے، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ یہ واقعہ ہوا ہی نہیں تھا۔''
ان کے بقول ''کچھ بے انصافیاں اتنی وحشت ناک، سفاکانہ اور سنگین ہوتی ہیں کہ ان کی پردہ پوشی ممکن نہیں ہوتی، چاہے لوگ کتنی ہی کوشش کریں۔''
اس دن کی مناسبت سے صدر جو بائیڈن نے قومی سطح پر 31 مئی 1921 کو ہونے والے نسل پرستانہ حملوں کی یاد منانے کا صدارتی اعلان بھی کیا۔
سو برس پہلے کیا ہوا تھا؟
ٹلسا میں 31 مئی 1921 کو پیش آنے والے ان واقعات کو امریکہ میں نسلی بنیادوں پر ہونے والے تشدد کے بدترین واقعات میں شمار کیا جاتا ہے۔
سو برس قبل 31 مئی کو ہونے والے اس قتلِ عام کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب ایک 19 سالہ سیاہ فام نوجوان پر ایک 17 سالہ سفید فام لڑکی کے ساتھ دست درازی کا الزام سامنے آیا تھا۔
یہ الزام لگنے کے بعد سفید فام نسل پرست ہجوم نے ٹلسا کے علاقے گرین وڈ کو نشانہ بنایا جہاں سیاہ فاموں کی آبادی تھی اور معاشی طور پر مستحکم ہونے کے باعث اس علاقے کو ’سیاہ فاموں کی وال اسٹریٹ‘ کہا جاتا تھا۔
ان حملوں میں نہ صرف سفید فام ہجوم کے ساتھ ٹلسا کی پولیس بھی شریک تھی بلکہ مبینہ طور پر سفید فام پولیس اہل کاروں نے حملہ آوروں کو ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔
اس دور میں سامنے آنے والی رپورٹس کے مطابق گرین وڈ کے علاقے میں ہونے والے حملوں میں باوردی سفید فام پولیس والے املاک کو آگ لگانے اور سیاہ فاموں کو گولی مارنے کی کارروائیوں میں بھی ملوث تھے۔
سن 1921 میں ہونے والے اس واقعے کو امریکہ میں آنے والے برسوں میں عام طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ لیکن 2013 میں اس وقت کے ٹلسا کے پولیس چیف چک جارڈن نے گرین وڈ میں اپنے محکمے کے کردار پر باقاعدہ معافی مانگی تو یہ واقعہ ایک بار پھر زور و شور سے زیرِ بحث آیا۔
اپنی معافی میں جارڈن نے اعتراف کیا تھا کہ 1921 میں ہونے والے قتلِ عام میں پولیس نے شہریوں کو تحفظ فراہم نہیں کیا تھا۔
Your browser doesn’t support HTML5
سیاہ فاموں کی وال اسٹریٹ
امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع وال اسٹریٹ یہاں موجود اسٹاک ایکسچینج اور سرمایہ کار بینکوں اور اداروں کی وجہ سے دنیا بھر میں معاشی سرگرمیوں کی علامت سمجھی جاتی ہے۔
ٹلسا کے علاقے گرین وڈ کو بھی ایک صدی قبل یہاں ہونے والے معاشی سرگرمیوں اور ترقی کی وجہ سے ’ سیاہ فاموں کی وال اسٹریٹ‘ کہا جاتا تھا۔
انیسویں صدی کے وسط میں امریکہ میں ہونے والی خانہ جنگی سے قبل اور دوران امریکہ کی جنوبی ریاستوں سے بھاگ کر آنے والے بہت سے سیاہ فام خاندان ٹلسا میں آباد ہوگئے تھے۔
ان سیاہ فام امریکیوں نے حکومتی اداروں اور معاشرے میں عام پائے جانے والے نسلی تعصب کے باوجود معاشی ترقی کا سفر شروع کیا۔ آنے والے برسوں میں یہاں بسنے والی کمیونٹی میں سیاہ فام کاروباری شخصیات اور ملازمت پیشہ خاندانوں کی تعداد بڑھتی رہی۔
خاص طور پر گرین وڈ ایونیو میں سیاہ فاموں کا کاروبار پھل پھول رہا تھا۔ یہاں سودا سلف کی دکانیں، ہوٹل، ڈاکٹروں اور وکیلوں کے دفاتر قائم ہوچکے تھے۔
گرین وڈ کی سیاہ فام کمیونٹی علاقے میں اسکول کا اپنا نظام، بچت اور قرض فراہمی کے ادارے، اسپتال اور اس کے ساتھ بس اور ٹیکسی سروس بھی چلا رہی تھی۔
امریکہ میں اس وقت رائج سفید فام نسل پرستی پر مبنی 'جم کرو قوانین' اور ’کو کلکس کلین‘ جیسے سفید فام نسل پرست گروہوں کے مضبوط ہونے کے باوجود گرین وڈ میں سیاہ فاموں کا معاشی سفر آگے بڑھ رہا تھا جس کی بدولت ان کی جانب سے یکساں حقوق کے مطالبات بھی زور پکڑ رہے تھے۔ اسی وجہ سے آس پاس کے علاقوں اور امریکہ کے دیگر علاقوں میں بسنے والے سیاہ فاموں کے لیے یہاں کی کمیونٹی قابلِ فخر اور ایک مثال بنتی جا رہی تھی۔
اس علاقے کی معاشی ترقی کی وجہ سے بھی اسے سفید فام نسل پرستوں نے نشانہ بنایا اور دو دن کے اندر سیاہ فام وال اسٹریٹ کو تباہ کردیا جسے بنانے میں ایک دہائی سے زیادہ عرصہ لگا تھا۔
’چند گھنٹوں میں سب کچھ ختم ہوگیا‘
ان حملوں میں بچ جانے والی 107 سالہ وائیولا فلیچر حال ہی میں واشنگٹن ڈی سی میں کانگریس کی ایک کمیٹی کے سامنے پیش ہوئیں۔ انہوں نے کمیٹی کے سامنے اس حملے میں اپنے نقصانات کے ازالے کا معاملہ پیش کیا اور ساتھ ہی اپنے اس دور کی یادداشتوں سے بھی کمیٹی کو آگاہ کیا جب وہ محض سات سال کی تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ 31 مئی 1921 کو میں اپنے گھر میں سونے کی تیاری کر رہی تھی اور آس پڑوس کے لوگ بھی سو چکے تھے۔ میرے خاندان کا گھر بہت خوب صورت تھا۔ ہمارے پڑوسی بہت اچھے تھے۔ وہاں میرے دوست بھی تھے جن کے ساتھ میں کھیلتی تھی۔ چند گھنٹوں میں سب کچھ ختم ہوگیا۔
انہوں نے بتایا کہ قتلِ عام کی رات ان کے گھر والوں نے انہیں جگایا۔ میرے والدین اور پانچ بہن بھائی بھی وہیں تھے۔ مجھے بتایا گیا کہ ہمیں بھاگنا ہوگا۔ گھر چھوڑتے ہوئے میں نے تباہی مچانے والا سفید فاموں کا جو ہجوم دیکھا تھا اسے کبھی بھلا نہیں پاؤ گی۔
اپنے بیان میں ان کا کہنا تھا، "وہ منظر آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے کہ کس طرح سیاہ فاموں کو گولیاں ماری گئیں۔ ان کی لاشیں کس طرح گلیوں میں بکھری ہوئی تھیں۔ میں آج بھی دھوئیں کی بو محسوس کرسکتی ہوں اور وہاں بھڑکنے والی آگ دیکھ سکتی ہوں۔ میں آج بھی دیکھ سکتی ہوں کہ کس طرح سیاہ فاموں کے کاروبار جلائے گئے۔ میں آج بھی فضا میں پرواز کرتے جہازوں کی آواز سن سکتی ہوں۔ میں آج بھی وہ چیخیں سن سکتی ہوں۔"
ماضی سے حال تک
وائس آف امریکہ کے نمائندے کین بریڈمیئر کی رپورٹ کے مطابق ٹلسا میں ہونے والے تشدد سے متعلق زیادہ تر امریکی آگاہی نہیں رکھتے۔ حالاں کہ امریکہ میں آج بھی پولیس کو نسلی امتیاز اور اقلیتوں سے ناروا سلوک کے الزامات کا سامنا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ میں نسلی بنیادوں پر معاشی ناانصافی اور ووٹنگ کے نئے قوانین بھی زیرِبحث ہیں جن کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے سیاہ فاموں اور ہسپانوی ووٹرز کا ٹرن آؤٹ اور اثر و رسوخ متاثر ہوگا۔
ٹلسا میں 1921 میں ہونے والے واقعات میں بچ جانے والے صرف تین افراد اس وقت زندہ ہیں جن کی عمریں 100 برس سے زائد ہیں۔
یہاں ہونے والے نسل پرستانہ حملے 1960 میں امریکہ میں چلنے والی پُرتشدد سول رائٹس موومنٹ سے بھی چار دہائی قبل ہوئے تھے جس کے نتیجے میں بالآخر سیاہ فام امریکیوں کو ووٹنگ کے حقوق حاصل ہوئے تھے اور معاشرے میں یکساں حقوق کے ان کے مطالبات تسلیم کیے گئے تھے۔
امریکہ کے جنوب مغرب میں واقع ٹلسا شہر کی آبادی اب چار لاکھ ہو چکی ہے۔ منگل کو اپنے دورے میں بائیڈن یہاں 1921 میں ہونے والے واقعات کی تاریخ سے متعلق ایک میوزیم کا بھی افتتاح کریں گے۔
لیکن یہ سوال تا حال جواب طلب ہے کہ ان حملوں میں بچ جانے والوں اور متاثرین کے ورثا کے نقصانات کی تلافی کب ہوگی اور انہیں کتنی رقم دی جائے گی۔ اسی طرح قتلِ عام میں مارے گئے افراد کے نامعلوم مدفن کیسے تلاش کیے جائیں گے؟
فلیچر اور ان کے 100 سالہ بھائی وین ایلس اور 106 سالہ لیسی بیننگ فیلڈ رینڈل ٹلسا سٹی، ٹلسا کاؤنٹی، ریاست اوکلاہوما اور ٹلسا چیمبر آف کامرس کے خلاف دائر ہرجانے کے مقدمے میں مرکزی دعوے دار ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ ان کے نامزد کردہ فریق اس قتلِ عام کے ذمے دار ہیں۔
سن 1921 میں ہونے والے ان واقعات کے 100 سال مکمل ہونے کی یاد منانے پر 2021 میں بھی کئی تنازعات سامنے آئے ہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
ان واقعات کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے صد سالہ کمیشن ’ٹلسا ریس میسیکر سینٹینئل کمیشن‘ نے واقعے کی یاد میں 'ریممبر اینڈ رائز' کے عنوان سے ہونے والا کانسرٹ 'غیر متوقع صورتِ حال' کے باعث منسوخ کردیا ہے۔
اس کانسرٹ میں سیاہ فام گلوکار جان لیجنڈ کو پرفارم کرنا تھا اور ووٹنگ حقوق کے لیے سرگرم ڈیموکریٹ رہنما اسٹیسی ابرامز کو تقریب سے خطاب کرنے والی تھیں۔
اوکلاہوما کے گورنر کیون اسٹٹ کو پہلے ہی واقعے سے متعلق بنائے گئے صد سالہ کمیشن سے نکالا جاچکا ہے۔ انہوں نے ایک ایسے قانون پر دستخط کیے تھے جو سرکاری اسکول کے اساتذہ کو ’کریٹیکل ریس تھیوری‘ پڑھانے سے روکتا ہے۔
ایک فکری تحریک کے بعد سامنے آنے والی 'کریٹیکل ریس تھیوری' کے مطابق انسانی معاشرے میں نسلی امتیاز یا تفریق کی بنیادیں فطری نہیں اور نہ ہی رنگ یا جسمانی خد و خال کی بنیاد پر یہ تقسیم رائج ہوئی۔
اس نظریے کہ مطابق دراصل رنگ کی بنیاد پر دیگر طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو دبانے کے لیے نسلی تقسیم کو سماجی سطح پر ’ایجاد‘ کیا گیا جب کہ یہ حقیقت میں وجود نہیں رکھتی۔
زرِتلافی کا معاملہ
’ٹلسا ریس میسیکر سینٹینئل کمیشن‘ پر یہ تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ وہ واقعے میں بچ جانے والوں اور حملوں کے متاثرین کے ورثا پر توجہ نہیں دے رہا۔
شہر میں ان مقامات کی کھدائی بھی شروع کردی گئی ہے جہاں قتلِ عام میں ہلاک ہونے والے افراد کو دفن کرنے کا شبہ پایا جاتا ہے۔
اوکلاہوما ریاست کے سینیٹر اور قتلِ عام پر بننے والے صد سالہ کمیشن کے سربراہ کیون میتھیوز نے گزشتہ ہفتہ رپورٹرز کو بتایا تھا کہ واقعات میں بچ جانے والوں نے ابتدائی طور پر فی کس ایک لاکھ ڈالر اور تلافی کے لیے قائم کیے گئے فنڈ میں 20 لاکھ ڈالر عطیہ دینے کا مطالبہ کیا تھا جسے کمیشن نے ابتدائی طور پر تسلیم کرلیا تھا۔
SEE ALSO: ایشیائی امریکی باشندوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ کیوں؟لیکن انہوں نے کہا کہ بعد میں مطالبہ کیا گیا کہ بچ جانے والوں کے لیے 10 لاکھ ڈالر فی کس اور فنڈ کے لیے پانچ کروڑ ڈالرز جمع کرائے جائیں جو ان کے بقول قابلِ قبول نہیں۔
واقعے میں بچ جانے والوں کے وکیل اس دعوے کو مسترد کر چکے ہیں۔ وکیل کا کہنا ہے کہ پانچ کروڑ ڈالر کا مطالبہ ایسا نہیں جس پر گفت و شنید نہ ہوسکے۔ لیکن حملوں میں بچ جانے والوں اور متاثرین کے ورثا کو براہِ راست مالی معاونت دینے کے ساتھ متاثرین کی امداد کے لیے قائم فنڈز کا انتظام جنوبی ٹلسا کمیونٹی کے زیرِ انتظام ہونے اور ان فنڈز کو کسی سیاہ فام بینک میں رکھنے کے مطالبے پر کوئی بات نہیں ہوسکتی۔