|
رواں ماہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے پاکستان ٹیم کا اعلان جمعرات کو متوقع ہے۔ پاکستان ٹیم آئرلینڈ میں تین اور انگلینڈ میں چار ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے گی۔
ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ اگلے ماہ کے آغاز میں ویسٹ انڈیز اور امریکہ میں کھیلا جائے گا جس میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے 20 ٹیمیں حصہ لیں گی۔
امکان ہے کہ آئرلینڈ اور انگلینڈ کے خلاف سیریز کے لیے ٹیم میں شامل ہونے والے زیادہ تر کھلاڑی ہی میگا ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کریں گے۔
پاکستان کرکٹ کے لیے ورلڈ کپ تو اہم ہے ہی، اگلے سال کے آغاز میں پی سی بی چیمپئنز ٹرافی کی میزبانی بھی کرے گی جس کے کامیاب انعقاد کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین محسن نقوی پرامید ہیں۔
بدھ کو کراچی کے نیشنل بینک اسٹیڈیم میں پاکستان اور ویسٹ انڈیز کی ویمنز ٹیموں کے ٹی ٹوئنٹی انٹرنیشنل میچ کے دوران انہوں نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے ورلڈ کپ کی تیاریوں کے ساتھ ساتھ چیمپئنز ٹرافی پر بھی بات کی۔
چیئرمین پی سی بی کا کہنا تھا کہ وہ پرامید ہیں کہ اگلے سال چیمپئنز ٹرافی سے قبل پاکستان کے وہ تمام گراؤنڈ اپ گریڈ کر لیے جائیں جہاں میگا ایونٹ کے میچز ہوں گے۔ ان کا اشارہ کراچی، لاہور اور راولپنڈی کی جانب تھا جن کے نام بورڈ نے آئی سی سی کو تجویز کیے ہیں۔
محسن نقوی کے بقول پاکستان کے کرکٹ گراؤنڈز کو انٹرنیشنل لیول پر لانے کے لیے انٹرنیشنل کنسلٹنٹس سے رابطہ کرلیا گیا ہے۔ سات مئی کو ان کی بڈز آئیں گی جس کے بعد فیصلہ کیا جائے گا کہ یہ ذمے داری کس کے سپرد کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صرف پاکستان میں تماشائی دور بیٹھ کر اس طرح کرکٹ میچز دیکھتے ہیں جیسے فٹ بال شائقین دیکھتے ہیں۔ ان کی کوشش ہو گی کہ تمام اسٹیڈیمز کو جدید طرز پر تیار کیا جائے تاکہ شائقین کو میچ دیکھنے کا مزہ آئے۔
انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ چیمپئنز ٹرافی میں اب وقت کم رہ گیا ہے لیکن وہ پرامید ہیں کہ اگر دن رات بیٹھ کر کام کریں گے تو ایونٹ سے قبل تمام اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش کا کام مکمل ہو جائے گا۔
محسن نقوی نے چیمپئنز ٹرافی کے حوالے سے بھارت سے آنے والی ان خبروں کی بھی تردید کی جن کے مطابق پاکستان کو ایونٹ کی میزبانی سے محروم کیا جا رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آٹھ میں سے زیادہ تر ٹیموں نے پاکستان آنے کی حامی بھر لی ہے اور آئی سی سی کی ٹیم بھی اپنے دورے سے مطمئن گئی ہے۔ وہ پرامید ہیں کہ بھارت بھی دیگر ممالک کی طرح ایونٹ میں شرکت کرے گا۔
یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے پاکستان میں ہونے والے انٹرنیشنل ایونٹ میں شرکت سے معذرت کی ہو۔ گزشتہ سال ہونے والے ایشیا کپ کے زیادہ تر میچوں کو صرف اس لیے سری لنکا منتقل کیا گیا کیوں کہ بھارتی حکومت نے اپنی ٹیم کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔
بھارتی ٹیم نے آخری بار 2008 میں پاکستان کا دورہ کیا تھا جب ایشیا کپ کی میزبانی پاکستان نے کی تھی۔ تب سے لے کر اب تک پاکستان ٹیم متعدد مرتبہ بھارت کا دورہ کر چکی ہے۔ لیکن بھارتی حکومت نے پاکستان ٹیم بھیجنے سے انکار کیا۔
گزشتہ سال بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ سے قبل پاکستان کرکٹ بورڈ نے میگا ایونٹ کے بائی کاٹ کا عندیہ دیا تھا جس کے بعد انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے یقین دہانی کرائی تھی کہ چیمپئنز ٹرافی میں بھارتی ٹیم شرکت کرے گی۔
چیمپئنز ٹرافی گزشتہ ورلڈ کپ کی ٹاپ آٹھ ٹیموں کے درمیان کھیلی جاتی ہے، اس لیے اگر بھارتی حکومت نے ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کیا تو امکان ہے کہ نویں نمبر پر موجود سری لنکن ٹیم کو متبادل ٹیم کے طور پر ایونٹ میں شا مل کر لیا جائے گا۔
سن 2017 میں ہونے والی آخری چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ٹیم پاکستان کو اس بار میزبان ہونے کی وجہ سے کوالی فائی کرنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ البتہ افغانستان، آسٹریلیا، بنگلہ دیش، انگلینڈ، بھارت، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ گزشتہ سال ہونے والے ورلڈ کپ میں اچھی کارکردگی کی وجہ سے ایونٹ کے لیے کوالی فائی کرنے میں کامیاب ہوئے۔
یہ پہلا موقع ہوگا جب سری لنکا کی ٹیم چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرنے سے قاصر ہو گی جب کہ افغانستان کی ٹیم پہلی بار چیمپئنز ٹرافی میں شرکت کرے گی۔