اقوام متحدہ کے ادارے ’بین الحکومتی کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی‘ (آئی پی سی سی) نے اپنی تازہ رپورٹ میں خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر بھارت میں ماحولیاتی آلودگی کے خطرات پر قابو نہ پایا گیا تو 2050 تک ملک کا نصف حصہ رہائش کے قابل نہیں رہے گا۔
مذکورہ رپورٹ اس کی چھٹی جائزہ رپورٹ کا دوسرا حصہ ہے جس میں آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات و خطرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
آئی پی سی سی نے پہلی بار الگ الگ خطوں کا جائزہ لیا اور بڑے شہروں پر توجہ مبذول کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق بھارت عالمی سطح پر سب سے زیادہ خطرے میں ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے 2050 تک نصف ملک ناقابل رہائش ہو جائے گا۔
رپورٹ میں دریاؤں کے پانی میں عدم توازن کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ 2050 تک دریائے گنگا میں پانی کی شدید قلت پیدا ہو جائے گی۔
لیکن اسی کے ساتھ بعض مقامات پر سمندروں کی سطح آب میں اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے ممبئی میں سیلاب کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ جب کہ گجرات کے شہر احمد آباد کو ہیٹ ویوز کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر گیسوں کے اخراج میں اسی طرح اضافہ ہوتا رہا تو 2050 تک ملک کی ساڑھے تین کروڑ سے زائد آبادی کو سمندری طوفانوں کا سامنا رہے گا جب کہ صدی کے آخر میں پانچ کروڑ تک افراد اس خطرے کا سامنا کریں گے۔
Your browser doesn’t support HTML5
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سطح سمندر میں اضافے کے باعث 2050 تک صرف ممبئی کو سالانہ 162 ارب روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔شہروں میں گرم ہواؤں اور لو کے تھپیڑوں میں تیزی آئے گی جس کی وجہ سے آلودگی میں اضافہ ہوگا۔
رپورٹ میں گرمی اور رطوبت کو یکجا کرکے ناپنے والے پیمانے ویٹ۔بلب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ویٹ۔بلب درجۂ حرارت کا 31 ڈگری پر پہنچ جانا انسانوں کے لیے انتہائی خطرناک ہے اور اگر یہ درجۂ حرارت 35 ڈگری تک پہنچ جائے تو کوئی بھی انسان چھ گھنٹے سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکتا۔
رپورٹ کے مطابق اگر گیسوں کے اخراج میں وعدے کے مطابق تخفیف کی جاتی ہے تو بھی صدی کے آخر تک بھارت کے شمالی اور ساحلی علاقوں میں یہ درجۂ حرارت 31 ڈگری تک پہنچ جائے گا۔ لیکن اگر اخراج میں اضافہ ہوتا رہا تو یہ درجۂ حرارت 35 ڈگری کی حد کو عبور کر جائے گا۔
اس مطالعے میں انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر گیسوں کے اخراج میں اضافہ جاری رہا تو لکھنؤ اور پٹنہ میں ویٹ۔بلب درجۂ حرارت کے 35 ڈگری تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ جب کہ بھونیشور، چنئی، ممبئی، اندور احمد آباد میں 32 سے 34 ڈگری تک پہنچ جانے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ میں آسام، میگھالیہ، تری پورہ، مغربی بنگال،بہار، جھارکھنڈ، اڑیسہ، چھتیس گڑھ، اترپردیش، ہریانہ اور پنجاب جیسی ریاستوں میں بھی ویٹ۔بلب درجۂ حرارت میں اضافے کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے نتیجے میں آبی سطح میں عدم توازن پیدا ہو جانے کی وجہ سے زراعت پر اثر پڑے گا اور چاول کی پیداوار میں 10 سے 30 فی صد اور مکئی کی پیداوار میں 25 سے 70 فی صد کی کمی کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے۔
ملک کے معروف ماہر ماحولیات آشیش کوٹھاری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق آئی پی سی سی کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ صورتِ حال بہت خراب ہے۔ آنے والے دنوں میں جو کچھ ہوگا اس سے ہٹ کر بھی اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے پوری دنیا میں آفات کے آنے کا جو معاملہ ہے وہ بہت سنگین ہے۔
انہوں نے کہا کہ اہم بات یہ ہے کہ موسم کی تبدیلی سے ساحلی علاقوں میں عوام پر پڑنے والے اثرات کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن بھارتی حکومت اس پر کوئی خاص توجہ نہیں دے رہی ہے۔
ان کے مطابق اس وقت مغربی ممالک بھارت سے زیادہ گیس خارج کرتے ہیں لیکن پھر بھی آگے چل کر بھارت کو گیسوں کا اخراج کم کرنا ہوگا۔ بھارت میں پاور اسٹیشنز، گاڑیوں اور کیمیکل زراعت سے گیس کا اخراج بڑھ رہا ہے۔ اسے کم کرنے پر بھی حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔
آشیش کوٹھاری کا کہنا تھا کہ ایسا لگتا ہے کہ گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے میں حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اب بھی کوئلے سے بجلی کی پیداوار میں اضافہ کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کے بجٹ کے مطابق 32 ہزار کلومیٹر ہائی ویز اور بنائے جائیں گے۔ اس سے نقل و حمل میں جو تیزی آئے گی اس سے بھی ماحولیات پر اثر پڑے گا۔
ان کے بقول بھارت کی معیشت کس طرح ماحول دوست بن سکے، اس پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری معاشی پالیسی میں اس بارے میں کوئی سنجیدگی نہیں ہے۔
اںہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمالیہ کے خطے میں راستے بنائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے گاڑیوں کی آمد و رفت ہو گی اور اس سے بلیک کاربن کا اخراج ہوگا۔ اس سے گلیشئیرز پر بھی بہت اثر پڑتا ہے۔ لداخ میں جہاں پہلے ہی گلیشیئرز کی بری حالت ہے، بڑی بڑی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں اس سے اور برا اثر پڑے گا اور دیہی علاقوں میں پانی کی قلت پیدا ہو جائے گی۔
بھارتی حکومت کا موقف
بھارت نے گرین ہاؤ س گیسوں کے اخراج کو کم کرنے کے اپنے عہد کا بارہا اعادہ کیا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے گزشتہ سال نومبر میں پیرس کے شہر گلاسگو میں منعقد ہونے والے عالمی ماحولیاتی اجلاس میں یہ وعدہ کیا تھا کہ بھارت گیسوں کے اخراج میں تخفیف کرکے 2070 تک نیٹ زیرو کا ہدف حاصل کر لے گا۔
یہ پہلا موقع تھا جب بھارتی وزیر اعظم نے گلاسگو اجلاس میں گیسوں کے اخراج میں تخفیف کے لیے وقت کا تعین کیا۔
انھوں نے کہا کہ بھارت 2030 تک اپنی توانائی کی 50 فیصد ضرورتیں قابل تجدید یا شفاف توانائی سے پوری کرے گا۔ اس کے علاوہ بھارت 2030 تک اپنے مجموعی متوقع کاربن اخراج کو ایک بلین ٹن تک کم کرے گا۔
توانائی کے مرکزی وزیر پرکاش جاوڈیکر نے گزشتہ سال ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارت اگلے دس برس میں گیس کے اخراج میں 35 فیصد کی کمی کا ہدف حاصل کر لے گا۔
بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے ملک کو درپیش خطرات سے آگاہ ہے اور اس کے سدِباب کے لیے تمام ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔