میرا گزر کراچی گارڈن پولیس ہیڈ کوارٹر زکے سامنے سے اتنی بار ہوا ہے کہ مجھے تو گنتی بھی یاد نہیں۔ شہر کی گنجان آبادی میں قائم اس ہیڈ کوارٹر میں پولیس کی بیرکیں، دفاتر، اسلحہ کے گودام سے لے کر ریڈیو اسٹیشن تک سب کچھ موجود ہے۔ اس تاریخی عمارت میں 'سندھ پولیس میوزیم' بھی موجود ہے جو عوام الناس کے لیے صبح سے شام تک کھلا ہوتا ہے۔ شاید اس میوزیم کے بارے میں پولیس ہیڈکوارٹرز کے سامنے سے گزرنے والوں کو بھی علم نہ ہو۔
میرے لیے اس میوزیم کی سیر ایک عام شخص کی طرح ہوسکتی تھی لیکن اس میں موجود نادر تصاویر کی اہمیت اور محکمۂ پولیس کے قیام کی تاریخ کے بارے میں جاننا میرے لیے حیران کن بھی تھا اور دلچسپ بھی۔سڑک پر کھڑا اپنی ڈیوٹی پر مامور پولیس کا سپاہی غالباًیہ نہ جانتا ہو کہ وہ جس ادارے کی وردی پہنے ڈیوٹی دے رہا ہے وہ برصغیر کی پہلی ماڈرن پولیس فورس تھی جسے دیکھ کر دوسرے صوبوں اور اضلاع میں پولیس کا نظام رائج کیا گیا۔ یہ سب اور اس کی تاریخ اس میوزیم کا حصہ ہے جہاں میرے اور میری جستجو کے سواکوئی دوسرا موجود نہ تھا۔
یہ میوزیم پانچ بڑے کمروں پر مشتمل ہے۔ ایک کمرہ پرانی تاریخی تصاویر کی گیلری پر مبنی ہے جب کہ دوسرے کمرے میں قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک ہونے والے مختلف واقعات، سانحات کی تفتیشی رپورٹس کی کاپیاں رکھی گئیں ہیں جو تحقیق میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے ایک خزانہ ثابت ہوسکتی ہے۔
تصاویر کی گیلری میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کی1969 میں پاکستانی دورے کی وہ تصویر آویزاں ہے جس پر سندھ پولیس ان کی آمد پر خیر مقدم کر رہی ہے۔ یہاں 1962 کی وہ تصویر بھی موجود ہے جس میں سابق امریکی صدر جان ایف کینیڈی کی اہلیہ جیکولین کینیڈی اپنی ہمشیرہ لی ریڈزیول کے ہمراہ اونٹ کی سواری کر رہی ہیں اور سندھ پولیس کا دستہ ان کے ساتھ موجود ہے۔
سابق انسپکٹر جنرل پولیس سعود احمد کے مطابق اس میوزیم کا قیام 2008 میں عمل میں لایا گیا جس کا تصور انہوں نے 2004 میں پیش کیا تھا۔ ان کے بقول اس میوزیم کا مقصد سندھ پولیس کی تاریخ کو ایک جگہ اکھٹا کرنا اور پولیس کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنا تھا۔
سعود احمد نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس میوزیم کو بنانے میں سب سے بڑا چیلنج جگہ کے تعین سے لے کر اس میں موجود تاریخی نادر اشیاء، دستاویزات، تصاویر کو محفوظ کرنے سے لے کر مختلف اشیا کئی شخصیات سے حاصل کر کےیہاں لانا تھا۔ جس میں ابتداء میں تو خاصے مسائل درپیش رہے لیکن پھر پولیس کے سابق افسران اور ایسی شخصیات جن کے پاس یہ سب موجود تھا انہوں نے بھی دلچسپی لیتے ہوئے اس میوزیم کو یہ اثاثے عطیہ کیے۔
پولیس کا میوزیم جس عمارت میں بنایا گیا ہے وہ 1876 کی تعمیر کردہ ہے جو ماضی میں کافی مخدوش حالت میں تھی۔ سعود احمد کے مطابق اس عمارت کی بحالی میں سندھ حکومت اور تاریخی ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں نے مدد کی ہے۔
میوزیم کے ایک حصے میں پرانی تصاویر کا خزانہ ہے لیکن ان میں سے چند بہت خاص ہیں۔ سب سے قدیم تصویر 1857 کی ہے جس میں سندھ پولیس کی اولین وردیاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک تصویر1906 میں لی گئی سندھ پولیس کے پہلے ڈی آئی جی سر ایڈمونڈ کاکس کی ہے۔ ایک تصویر 1914 کی ہے جس میں سندھ، بمبئی، برطانوی پولیس کمانڈر ایک ساتھ بیٹھے ہیں یہ تصویر انڈیا کے شہر ناسک کی ہے جہاں پولیس کی تربیت کی جاتی تھی اور کمیشنڈ آفیسرز یہاں سے برصٖغیر کے مختلف علاقوں میں تعینات کیے جاتے تھے۔
اس گیلری میں 1948 کی ایک اور یادگار تصویر ہے جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر پاکستان کے پہلے گورنر جنرل محمد علی جناح کو سندھ پولیس گارڈ آف آنر پیش کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں آئی جی ویسٹ پاکستان شریف خان کی بھارتی وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو کے ساتھ وہ تصویر بھی آویزاں ہے جب 1960 میں بھارتی وزیر اعظم نے سندھ طاس معاہدے پر دستخط کے لیے پاکستان کا دورہ کیا۔
سن 1961 میں ملکۂ برطانیہ الزبتھ دوم کی سابق صدر ایوب خان کے ساتھ وہ تصویر بھی یہاں موجود ہے جس میں وہ کراچی کے دورے پر ہیں اور ان کے قافلے کی قیادت سپرنٹنڈنٹ پولیس وحید امتیاز کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ قیامِ پاکستان سے قبل اور تقسیم کے بعد کی ایسی بہت سی تصویریں اس گیلری میں آویزاں ہیں جو ماضی میں پولیس کے کردار اور تاریخ کو اجاگر کرتی ہیں۔
سندھ پولیس کو بر صغیر کی پہلی ماڈرن پولیس فورس بنانے میں سب سے پہلا نام ایڈورڈ چارلس مارسٹن کا آتا ہے۔ 1822 کو پیدا ہونے والے مارسٹن 1939 میں بمبئے آرمی کا حصہ بنے اور یکم مئی 1843 میں انہیں کراچی پولیس چیف بنایا گیا۔ مارسٹن نے سندھ پولیس کی تشکیل ایک الگ انداز سے کی۔ انہوں نے سندھ پولیس کو تین برانچوں میں تقسیم کیا جس میں ماونٹڈ پولیس، رورل پولیس اور سٹی پولیس شامل تھی۔ اس تشکیل کے بعد سندھ پولیس کے اس وقت کے آئی جی جسے اس زمانے میں 'کیپٹن آف پولیس' کہا جاتا تھا اس عہدے پر فائز رہے۔
سن 1846 سے 1864 تک کی سروس میں مارسٹن نے پولیس کو اس نہج پر پہنچادیا کہ سندھ پولیس کے نظام کو دیکھ کر برطانوی پولیس نے دیگر علاقوں میں بھی اس نظام کو اپنایا۔1857 کی جنگ آزادی کے وقت جب برصغیر میں بغاوت اور خون ریزی عروج پر تھی مارسٹن کی بدولت سندھ پولیس ہندوستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت سندھ بھر میں حالات کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی ۔ کراچی شہر مارسٹن کو بے حد پسند تھا اس لیے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ اسی شہر میں رہے اور 1902 میں وفات پاگئے۔
سابق آئی جی سعود احمد کے مطابق سندھ پولیس پاکستان کی سب پرانی فورس ہے جب کہ برصغیر کی یہ چوتھی فورس تھی۔ انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے پولیس بنگال ، مدراس اور پھر بمبئے میں بنی جس کے بعد اس کا قیام سندھ میں ہوا۔ یہ سندھ پولیس باقی تین فورسز سے اس لحاظ سے منفرد تھی کہ ان کی کمانڈ نان پولیس آفیسرز کے ہاتھ میں تھی جب کہ سندھ پولیس کی کمان اپنے آفیسرز کرتے تھے اور وہ ریونیو آفیسرز کو جواب دہ نہیں تھے۔ اس لحاظ سے یہ ایک آزاد اور خودمختار ادارہ بنا اسی وجہ سے اسے ہندوستان کی پہلی ماڈرن پولیس فورس کا نام دیا گیا۔
سعود احمد کے مطابق سندھ پولیس نے اپنے ابتدائی ادوار میں تفتیش کے روایتی طریقوں کو بھی سب سے پہلے رائج کیا۔ اس زمانے میں کھوجی جو کسی واردات کے بعد اپنے تجربے سے تفتیش میں مدد دیتے تھے انہیں بھی پولیس نظام کا حصہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ سندھ پولیس کے پاس برصغیر پاک و ہند کا سب سے بڑا گھڑ سواروں کا دستہ بھی رہا جس کی تعداد ایک ہزار تک تھی جن کے لیے سندھ پولیس نے کثیر سرمایہ علیحدہ سے رکھا ہوا تھا۔
مارسٹن گیلری
اس گیلری کو ایڈورڈ چارلس مارسٹن کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ جس میں اس دور کے ہتھیار رکھے گئے ہیں جو 1857 اور اس کے بعد پولیس سپاہیوں کے زیر استعمال رہے۔ اس طرح کے مختلف پرانے ہتھیار، رائفلز، جن کی تعداد ایک سو سے زائد ہیں اس میوزیم کا حصہ ہیں۔
اس گیلری میں پرانے پولیس کے نظام، قوانین، ایکٹ بھی موجود ہیں۔ یہاں 1938 کی سندھ پولیس کی سیکرٹ انٹیلی جنس رپورٹس بھی رکھی گئی ہیں۔ کیپٹن آف سندھ پولیس مارسٹن کا لکھا ہوا خط، 1915کی بمبئے ریذیڈنسی رپورٹ، 1882 کی قدیم جوڈیشل کیس فائل، 1947 کی ایف آئی آر بھی محفوظ ہیں۔
یہاں رکھی گئی سب سے پرانی ایف آئی آر 13 جون 1942 کی ہے جو چالیس روپے کی چوری پر کاٹی گئی تھی۔ اس گیلری میں پولیس کے زیر استعمال رہنے والے پرانے کمیونی کیشن آلات موجود ہیں۔ وہیں پولیس کی قدیم سے لے کر دورِ حاضر تک کی وردیاں بھی اس گیلری کا حصہ ہیں۔
میوزیم میں وقت کے ساتھ بدلتے پولیس کے رینکس بھی رکھے گئے ہیں وہیں سابق افسران کو ملنے والے اعزازات، تمغے بھی محفوظ کیے گئے ہیں۔ اس میوزیم میں تقسیم سے قبل اور پاکستان کے قیام کے بعد سے پولیس کے اعلیٰ افسران کی تصاویر ان کی مدت ملازمت کے ساتھ آویزاں ہیں۔
سابق آئی جی سعود احمد کے مطابق میوزیم میں مانیٹرز نصب کیے جائیں گے جس میں دیگر تصاویر کو اپلوڈ کیا جائے گا۔
عوام کا پولیس کے حوالے سے منفی رویہ اور خدشات کے سوال پر سعود احمد کا کہنا تھا کہ پولیس کی نسبت عوام کا فوج کے ساتھ لگاؤ اس لیے بھی زیادہ ہے کہ فوج کا تعلق عوام سے براہِ راست نہیں جب کہ پولیس کا کام اور واسطہ عوام کے ساتھ چوبیس گھنٹوں کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ عوام کا پولیس کے حوالے سے یہ تاثر بن چکا ہے کہ یہ فورس صرف ڈرانے دھمکانے یا طاقت کا استعمال کرنے کے لیےہے یہاں تک کہ آج بھی والدین اپنے بچوں کو ڈرانے کے لیے پولیس کی دھمکی دیتے ہیں کہ تم یہ کرو گے تو پولیس آجائے گی۔ ان کے بقول کوشش ہے کہ پولیس کے لیے اس منفی تاثر کو زائل کیا جاسکے اور اس سلسلے میں میوزیم بھی ایک کاوش ہے۔