|
لاہور -- پاکستان کے تین مرتبہ وزیرِ اعظم رہنے والے میاں محمد نواز شریف ایک مرتبہ پھر مسلم لیگ (ن) کے صدر بن گئے ہیں جس کے بعد سیاسی اور عوامی حلقوں میں یہ بحث جاری ہے کہ سابق وزیرِ اعظم پارٹی کو منظم کرنے میں کامیاب ہو سکیں گے یا نہیں۔
نواز شریف ایک ایسے وقت میں اپنی جماعت کے صدر منتخب ہوئے ہیں جب برسرِ اقتدار مسلم لیگ (ن) کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رویہ بظاہر نرم ہے۔ نواز شریف کے بھائی شہباز شریف ملک کے وزیرِ اعظم ہیں جب کہ ان کی بیٹی مریم نواز پنجاب کی وزیرِ اعلیٰ ہیں۔
واضح رہے کہ نواز شریف جب لندن میں خود ساختہ جلا وطی اختیار کیے ہوئے تھے تو اس وقت کی پاکستان کی فوجی قیادت اور عدلیہ پر جارحانہ انداز میں تنقید کیا کرتے تھے جس میں اب کافی نرمی دکھائی دیتی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے تمام قائدین ایک بات تواتر سے کہتے آ رہے ہیں کہ پارٹی کے تمام چھوٹے، بڑے اہم فیصلے نواز شریف کی مشاورت سے کیے جاتے ہیں۔
ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کیوں مسلم لیگ (ن) کے صدر منتخب ہوئے ہیں؟ کیا وہ واقعی کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں؟ یا دوبارہ صدر بننا صرف اُن کی انا کو تسکین پہچانا ہے؟ اور مسلم لیگ (ن) کے صدر بننے کے بعد ان کے اہداف کون سے ہیں؟
خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو نواز شریف کو سپریم کورٹ کی جانب سے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد وزارتِ عظمیٰ سمیت پارٹی صدر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
بعض سیاسی مبصرین کی رائے میں نواز شریف عملی طور پر پاکستان کی بہتری کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن انہیں اپنے بیانیے اور سیاست کے انداز کو بھی بہتر کرنا ہو گا۔
'نواز شریف کو ماضی کے بجائے اب آگے دیکھنا ہو گا'
مسلم لیگ (ن) کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اگر نواز شریف کچھ کرنا چاہیں تو ان کے پاس کرنے کو بہت کام ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہباز شریف نے بطورِ وزیرِ اعظم اپنا ہدف ملک میں معیشت کی بحالی رکھا ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ ہے جب کہ ان کے سیاسی معاملات ایک طرف ہیں۔
ان کے بقول نواز شریف کو چاہیے کہ وہ ماضی سے نکلیں۔ وہ اپنی ساری تقریر کا نوے فی صد ماضی پر رکھتے ہیں۔ اگر وہ ماضی سے نکل کر آگے چلیں گے تو ان کے اور ان کی جماعت کے لیے راستہ ہو گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ان کے پاس واقعی کوئی قابلِ عمل منصوبہ ہے تو اس پر کام کریں اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔
'نواز شریف کی تقریر سے کوئی تاثر نہیں ملا کہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں'
تجزیہ کار اور کالم نویس نصرت جاوید کے مطابق نواز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے صدر بننے کے بعد جو تقریر کی ہے اُس میں تو کوئی ایسا عندیہ نہیں دیا جس سے یہ تاثر ملے کہ وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ اُن سے مسلم لیگ (ن) کی صدارت چھینی گئی تھی جو کہ اُنہیں واپس کر دی گئی ہے۔
ان کے بقول نواز شریف کو بہت غصہ ہے۔ ماضی میں جس طرح ان کی حکومتوں کو ہٹایا گیا اور انہیں چلنے نہیں دیا گیا وہ یہ سب بھلانے کو تیار نہیں ہیں۔ بطورِ سیاست دان انہیں اب مستقبل پر توجہ دینی چاہیے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک انا کی تسکین جیسا معاملہ محسوس ہو رہا ہے۔ کوئی سیاسی فکر انگیزی نظر نہیں آ رہی۔
ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو واپس لانے کے لیے ضروری تھا کہ حکومت کا نظم و نسق بھی ان کے ہاتھ میں ہو۔ ان کے بقول جب تک پاکستان کی معیشت میں بہتری نہیں ہوتی نواز شریف کے لیے اپنی جماعت کے کارکنوں کو متحرک کرنا مشکل ہو گا۔
'نواز شریف کو سیاست کے بجائے ریاست کے معاملات لینی چاہیے'
ملک کے سیاسی معاملات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کچھ کرنا چاہتا ہے۔ وہ صدر بن کر اپنی جماعت اور جماعت کی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنی جماعت کو دوبارہ منظم کرنا چاہتے ہیں۔ اُن کی صحت اب اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اسٹریٹ پالیٹکس کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو اپنے سیاسی تجربے کو سامنے رکھتے ہوئے سیاست کے بجائے ریاست کے معاملات میں دلچسپی لینی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو ریاست کے معاملات دیکھنے چاہئیں جب کہ شہباز شریف کو سیاست کرنی چاہیے۔ لیکن یہاں الٹ ہوا ہے۔ ان کے بقول نواز شریف زیادہ بہتر جان سکتے ہیں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جنرل کونسل نے منگل کو نواز شریف کو بلامقابلہ پارٹی صدر منتخب کیا تھا۔ صدر منتخب ہوتے ہی وہ عملی طور پر متحرک ہو گئے ہیں۔
بدھ کو انہوں نے اپنی رہائش گاہ جاتی امرا میں وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ طور پر اجلاس کی صدارت کی جس میں آئندہ مالی سال کے بجٹ اور عوام کو ریلیف دینے کے حوالے سے تجاویز پر غور کیا گیا۔
تجزیہ کار نصرت جاوید کی رائے میں اِس وقت سب سے بڑا مسئلہ پاکستان کی معیشت کو سنبھالنا ہے جب کہ دوسرے نمبر پر مہنگائی کو ختم کرنا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مہنگائی ختم کرنے کے لیے اقدامات حکومتی عہدے میں رہ کر کیے جا سکتے ہیں۔ جب تک مہنگائی قابو نہیں آئے گی ان کا ووٹر متحرک نہیں ہو گا۔ ان کا ناراض ووٹر ان سے ناراض ہی رہے گا۔
نواز شریف کو درپیش چیلنجز
تجزیہ کار سلمان غنی کی رائے میں نواز شریف کے لیے بڑے چیلنجز تین ہیں جن میں سرِ فہرست بطور جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت اور ساکھ کی بحالی ہے۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ کیا حکومت کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ پا رہے ہیں۔ تیسرا چیلنج گورننس کا عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو ایک چیلنج یہ بھی ہے کہ ان کی جماعت کے اندر مخصوص لوگ ہی 'قابض' رہیں گے یا نوجوان نسل کو بھی اِس کا حصہ بنایا جائے گا۔
البتہ سہیل وڑائچ کی رائے میں نواز شریف کا سب سے بڑا چیلنج اپنی جماعت کی جو اربن مڈل کلاس میں مقبولیت کم ہوئی ہے اُس کو واپس لانا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کا خیال ہے کہ جماعت کی مقبولیت کارکردگی یعنی پرفارمنس اور چھوٹے موٹے بیانیے سے واپس آئے گی۔
سہیل وڑائچ کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں چوہدری پرویز الٰہی جب وزیرِ اعلیٰ تھے تو ان کی کارکردگی بہت بہتر تھی۔ اگرچہ وہ فوج کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھے لیکن چونکہ اُن کا کوئی سیاسی بیانیہ نہیں تھا تو جب انتخابات آئے تو وہ ہار گئے۔ اِس لیے سیاسی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ کسی بھی سیاسی قائد کے بیانیے میں کتنی طاقت ہے اور پرفارمنس بیانیے کے ساتھ مانپی جاتی ہے۔
تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ اِس وقت جو پاکستان میں چل رہا ہے یہ حکومت نہیں بلکہ ایک بندوبست ہے۔
ان کے بقول جس کام کے لیے یہ حکومت بنی ہے اُس کی وجہ ملک کی معیشت غیر مستحکم تھی جب کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے بقا کا بھی مسئلہ تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ اسٹیبلشمںٹ ریاست کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب تھا جبکہ اب صورتِ حال بہتر ہے اور بہتری کی طرف جا رہی ہے۔
تجزیہ کار نصرت جاوید کی رائے میں ایسا ہو سکتا ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود مقتدرہ پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہو جائے۔
سہیل وڑائچ کے بقول نواز شریف کی منگل کے روز کی تقریر دیکھی جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُنہوں نے ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کے چند اشخاص چُن لیے ہیں جن میں فوج اور عدلیہ کے لوگ شامل ہیں جب کہ دوسری جانب اُن کا مرکزی ہدف عمران خان ہے کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کے خلاف جو سازش ہوئی اُس میں عمران خان مرکزی مہرہ تھے۔