|
کراچی -- عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) نے آئندہ تین برس کے دوران پاکستان کو سات ارب ڈالر دینے کی منظوری دے دی ہے۔ لیکن اس معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف کی کئی شرائط پوری کرنا ہوں گی۔
معاہدے کے تحت پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی پہلی قسط موصول بھی ہو گئی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ گو کہ پروگرام کی بحالی پاکستان کے لیے سکون کا باعث بنی ہے۔ لیکن ملکی معیشت کو اب بھی کئی خطرات لاحق ہیں جس کے لیے نئے عزم کی ضرورت ہے۔
اُن کا کہنا ہے کہ اصلاحات کا عمل ابھی شروع بھی نہیں ہوا جو اس وقت کی ضرورت ہے۔ جب کہ وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ فنڈ پروگرام ملنے سے پہلے کی گئی اصلاحات کے مثبت نتائج شروع ہو چکے ہیں اور یہ اصلاحات آئندہ بھی جاری رہیں گی۔
معیشت کو اس وقت کیا چیلنجز درپیش ہیں؟
فنڈ کی جانب سے جاری بیان میں پاکستان کی معیشت کو درپیش کئی چیلنجز کی نشاندہی کی گئی ہے جس میں کمزور گورننس، کاروبار کرنے کے لیے مشکل ماحول جس میں ریاستی اداروں کا بے جا کردار سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنتا ہے۔ اس کے ساتھ صحت اور تعلیم کے شعبے میں ناکافی اخراجات شامل ہیں۔
فنڈ کا کہنا ہے کہ ملک میں ٹیکس بیس انتہائی معمولی ہے۔ اس سے مالی استحکام یقینی بنانا اور اسے انصاف پر مبنی کرنا مشکل بن جاتا ہے۔
ان ساری وجوہات کی بناء پر حکومت صحت اور تعلیم پر کم پیسے خرچ کرتی ہے اور نتیجتاً غربت پر قابو پانا اور انفراسٹرکچر کی ترقی کے لیے اخراجات نکالنا مشکل ہو جاتے ہیں۔
حکومت کے لیے فنڈ کی شرائط پوری کرنا آسان ہو گا یا مشکل؟
ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کو جن شرائط سے جوڑا ہے ان میں سے بعض پر عمل درآمد کرانا حکومت کے لیے کافی مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مثال کے طور پر فنڈ چاہتا ہے کہ حکومت زراعت، رئیل اسٹیٹ اور ریٹیل سیکٹر پر مکمل ٹیکس کا نفاذ کرے اور ان شعبوں کو اب مزید چھوٹ نہ دی جائے۔
فنڈ یہ بھی چاہتا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان ریونیو شیئرنگ کے حوالے سے مالیاتی معاہدے بھی کیے جائیں تاکہ محصولات کا بڑا حصہ صوبے بھی پیدا کریں۔
مالیاتی امور کے ماہر یوسف سعید کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کو درپیش مسائل کے پیشِ نظر ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنا آئی ایم ایف کی جانب سے مقرر کردہ پہلی ترجیح ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ رواں سال حکومت نے 12 ہزار 980 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف مقرر کیا ہے جسے پورا کرنا فی الحال کافی چیلنج بنا ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ تمام تر دعوؤں کے باوجود حکومت نے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے ہی پر ٹیکس کا بوجھ بڑھایا۔ دوسری جانب کسی حد تک رئیل اسٹیٹ کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی نیم دلانہ کوشش تو کی گئی۔ لیکن زرعی آمدن پر ٹیکس کے نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے جنوری 2025 تک کا وقت حاصل کر لیا گیا۔ اس پر بھی تمام صوبوں بالخصوص سندھ کا اتفاق نہیں اور اسے مزید توسیع دیے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔
یوسف سعید کا کہنا ہے کہ اس کے علاوہ فنڈ اب وفاقی حکومت کے حجم میں بھی کمی چاہتا ہے اور صوبائی حکومتوں کے اخراجات پر نظر رکھ رہا ہے۔
'آئی ایم ایف نے قرض پروگرام کے اجراء میں لچک کا مظاہرہ کیا'
ماہر معاشیات اور مبصر سلمان احمد نقوی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف نے اس بار پھر حکومت کے ساتھ نرم رویہ اختیار کیا ہے۔
اُن کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کو تین سال کے لیے سات ارب ڈالر کا بڑا پروگرام دیا گیا ہے جب کہ پروگرام کے جائزے ہر تین ماہ کے مقابلے میں اس بار ہر چھ ماہ بعد ہوں گے اور یہ عمل قرض دہندہ کی جانب سے لچک کی نشاندہی کرتا ہے۔
سلمان احمد نقوی کے مطابق پاکستان کو ایک بار پھر موقع دیا ملا ہے کہ وہ اصلاحات کے نفاذ کو یقینی بنا کر اپنی معاشی مشکلات سے باہر نکلے۔ لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ پاکستانی حکام اس موقعے کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
سلمان نقوی کا کہنا ہے کہ پہلے سے کم ٹیکس دینے والے شعبوں (بشمول صنعت کاروں، ڈویلپرز اور بڑے پیمانے پر زراعت) پر زیادہ بوجھ ڈالنا ہو گا تاکہ محصولات میں اضافہ کیا جا سکے جس سے حکومتی کارکردگی میں اضافہ ممکن ہو گا۔
سرکاری اداروں کے نقصانات کم کرنا اہم چیلنج
یوسف سعید کا کہنا ہے کہ پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام مکمل کرنے کے لیے حکومت کے کاروباری اداروں میں بنیادی اصلاحات لانا ضروری قرارد یا گیا ہے تاکہ ان کے نقصانات کو ختم کیا جا سکے۔
اُن کے بقول غیر ضروری سبسڈیز کا خاتمہ، تمام کاروباروں کے لیے برابری کے میدان کو فروغ دینا، بہتر حکمرانی اور انسدادِ بدعنوانی کے اداروں کو مضبوط کرنا بھی ضروری ہے۔
یوسف سعید کا کہنا تھا کہ ایسی اصلاحات کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ سیاسی طور پر ایک مضبوط حکومت موجود ہو جو اس بارے میں قوانین کی تبدیلی کے ساتھ آئینی ترامیم بھی لاسکے۔
لیکن اس وقت ملک کے سیاسی اور عدالتی معاملات میں استحکام دکھائی نہیں دیتا۔ ایسے میں حکومت کے لیے اصلاحاتی پیکج پر عمل کرنا کسی چیلنج سے کم نہیں ہو گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
توانائی کے شعبے میں نقصانات
ماہرین معیشت کا کہنا ہے کہ پاکستان کا توانائی کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جو سب سے زیادہ نقصان کا شکار ہے۔
فنڈ حکام نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ توانائی کے شعبے میں کسی قسم کی سبسڈی جاری رکھنے کے حق میں نہیں اور توانائی کی پیداواری قیمت کو کم کرنے کے ساتھ اس شعبے میں گردشی قرضے کے مسئلے کو حل کرنا ضروری ہو گیا ہے۔
اس کے لیے اس شعبے میں پائیدار اور دیرپا اصلاحات کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
یوسف سعید کے مطابق صرف توانائی (گیس اور بجلی دونوں ملا کر) کا ایک شعبہ ہی تنہا پاکستان کی معیشت کی زبوں حالی کا شکار کرنے کا نصف ذمہ دار ہے جہاں خسارے پانچ ہزار ارب روپے کو کراس کر چکے ہیں۔
ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے؛ وزیر خزانہ
لیکن وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اس حوالے سے مختلف مؤقف رکھتے ہیں۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ایک جانب ملک معاشی استحکام کی جانب گامزن ہے اور دوسری جانب حکومت اصلاحاتی پیکج پر اس کی روح کے مطابق عمل پیرا ہے۔
انہوں نے صحافیوں کو بتایا کہ ملک میں ڈیڑھ لاکھ آسامیاں ختم کرنے سے وفاقی حکومت کے اخراجات میں واضح کمی آئے گی اور اس حوالے سے پہلے مرحلے میں چھ وفاقی وزارتیں ختم کی جا رہی ہیں۔
وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف کا اسٹینڈ بائی معاہدہ کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد معاشی استحکام کے لیے کاوشیں شروع کی گئیں۔ اس پروگرام سے پاکستان مکمل معاشی استحکام کی طرف تیزی سے بڑھے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کیش اکانومی یعنی نقد معیشت سے چھٹکارا پانے کے لیے معیشت کو دستاویزی شکل دینے کے لیے ہر قدم اٹھائے گی اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے تناسب کو بہتر بنانے کے لیے سخت محنت کر رہی ہے۔
خیال رہے کہ اس وقت پاکستان کا ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب نو فی صد ہے جو خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی کم ہے اور یہ دنیا کے کم ترین ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب کے حامل ممالک میں سے ایک قرار دیا جاتا ہے۔