چمن: پاک، افغان سرحد پر فائرنگ کا واقعہ، 'ملزم کی حوالگی تک سرحد نہیں کھلے گی'

فائل فوٹو

پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے ضلع چمن میں پاک، افغان سرحد پر فائرنگ کے واقعے میں ایک سیکیورٹی اہلکار کی ہلاکت کے باعث سرحد بدستور بند ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ جب تک فائرنگ کرنے والے شخص کو اُن کے حوالے نہیں کر دیا جاتا، سرحد نہیں کھلے گی۔

اتوار کو پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے افغانستان سرحد سے متصل علاقے چمن میں باب دوستی پر افغان حدود سے فائرنگ اور دونوں جانب سے جھڑپوں کے بعد صورتِ حال کشیدہ ہو گئی تھی۔

پاکستان اور افغانستان میں طالبان حکام نے دونوں جانب سے فائر بندی پر زور دیا ہے جب کہ پاکستانی حکام نے سیکیورٹی فورسز پرفائرنگ کرنے والے افراد کی حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔

چمن میں لیویز فورس ذرائع نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اتوار کو دوپہر ایک بجے افغانستان کی جانب سے باب دوستی کے پیدل آمد و رفت کے گیٹ پر تعینات فرنٹیئر کور (ایف سی) اہلکاروں پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔

لیویز ذرائع کے مطابق فائرنگ سے ایک ایف سی اہلکار ہلاک جب کہ دو زخمی ہوئے جنہیں طبی امداد کے بعد کوئٹہ کے اسپتال منتقل کیا گیا۔

سرحد پر فائرنگ کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا ہے سرحد پر اچانک فائرنگ ہوتی ہے جس کے بعد افراتفری پھیل جاتی ہے۔

حکام کے مطابق دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ مسلسل ایک گھنٹے تک جاری رہا ہ جس کے بعد فائر بندی کردی گئی۔

چمن سرحد پر ایک سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ سرحد پر حالات اس وقت خراب ہوئے جب سرحد پار ایک مسلح موٹر سائیکل سوار کی جانب سے پاکستان کی حدود میں سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی گئی۔


واقعے کے عینی شاہد محمد جبار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چمن میں اتوار سے باب دوستی کے دونوں جانب سے معمول کے مطابق آمد و رفت جاری تھی کہ اچانک شدید فائرنگ کی آواز سنائی دی۔

عبدالجبار کے بقول "میں نے دیکھا کہ سرحد پار ایک موٹر سائیکل سوار نے شدید فائرنگ کی جس کے بعد بھگدڑ مچ گئی جس سے کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں تاہم شہری آبادی سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔"

یاد رہے کہ چمن سرحد سے دونوں جانب روزانہ کی بنیاد پر 15 سے 20 ہزار افراد سفر کرتے ہیں جب کہ پاکستان افغانستان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت سینکڑوں مال بردار گاڑیوں کی بھی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔

سرحد کی بندش سے دونوں جانب سینکڑوں لوگ پھنس گئے ہیں چمن میں ایک افغان باشندے ایوب خان نے وائس آف امریکہ سےبات کرتے ہوئے کہا کہ میں گزشتہ روز کے واقعے کے بعد پاکستان میں پھنس گیا ہوں۔

افغان حکام کا بھی فائرنگ سے سات افرادکے زخمی ہونے کا دعویٰ

دوسری جانب افغان حکام نے بھی دعویٰ کیا کہ جوابی فائرنگ سے ان کے 7 شہری زخمی ہوئے ہیں جنہیں علاج کے لیے اسپن بولدک کے مقامی اسپتال میں داخل کیا گیا ہے۔تاہم پاکستانی حکام نے اس دعوے کو مسترد کیا ہے۔

ضلعی حکام کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز کے واقعے کے بعد پاکستان افغانستان سرحد پر باب دوستی کی حدود میں سیکیورٹی مزید سخت کردی گئی ہے۔

ادھر ڈپٹی کمشنر چمن عبدالحمید زہری نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک افغان حکام ملزم کو گرفتار کرکے پاکستان کے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک سرحد بند رہے گی۔

خیال رہے کہ پاکستان کا یہ الزام رہا ہے کہ سرحد پار افغانستان سے کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے جنگجو پاکستانی فورسز پر حملے کرتے ہیں۔ پاکستان ، افغانستان میں طالبان حکام پر زور دیتاہے کہ ایسے عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کی جائے۔

البتہ افغان طالبان کا یہ مؤقف رہا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔


اس سے قبل دونوں جانب کے عسکری حکام کی فلیگ میٹنگ ہوئی جس میں فائر بندی پر مذاکرات ہوئے ذرائع نے بتایا ہے کہ پاکستانی حکام نے فائرنگ کرنے والے ملزم کی گرفتاری اور پاکستان کو حوالگی پر زور دیا ہے۔

اس واقعے پر تاحال افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔تاہم سوشل میڈیا پر ایک آڈیو ریکارڈنگ بھی گردش کر رہی ہے جس میں افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ایک مسلح موٹر سائیکل سوار جس نے سبز رنگ کی پگڑی پہن رکھتی تھی نے فائرنگ کی اور فرار ہوگیا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس شخص کا طالبان سے کوئی تعلق نہیں ہے اس شخص کو فی الفور گرفتار کیا جائےجو طالبان کے بھیس میں فائرنگ کرکے حالات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

فورسز کو یہ پیغام جاری کرتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ سرحد کے قریب کارروائی کرکے تمام ایسے افراد کو گرفتار کیا جائے جن کے پاس لائسنس یا بغیر لائسنس کے اسلحہ موجود ہو۔

دونوں جانب کے تاجروں نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے فی الفور سرحد کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔

تاجروں کا کہنا ہے کہ افغانستان سے ڈرائی فروٹس اور انار جب کہ پاکستان کی جانب سے اشیائے خورونوش کی سینکڑوں گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ اگر زیادہ دیر تک سرحد بند رہی تو یہ سامان خراب ہوسکتا ہے جس سے تاجروں کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچے گا۔