امریکی عدالت نے فوج کی دستاویزات 'وکی لیکس' کو فراہم کرنے کے الزام میں قید امریکی فوج کی سابق اہل کار چیلسی میننگ کی رہائی کا حکم دیا ہے۔
چیلسی میننگ کو 'وکی لیکس' سے متعلق تحقیقات کے دوران گواہی دینے سے انکار پر گزشتہ سال مئی میں حراست میں لیا گیا تھا۔
الیگزینڈریا ورجینیا کے ڈسٹرکٹ کورٹ جج انتھونی ٹرینجا نے چیلسی میننگ کی رہائی کا حکم دیا۔ جج نے کہا کہ گرینڈ جیوری تحقیقات مکمل کر چکی ہے۔ لہذٰا چیلسی کو رہا کیا جائے۔
الیگزینڈریا پولیس حکام کا کہنا ہے کہ عدالتی حکم پر چیلسی کو حراستی مرکز سے رہا کر دیا گیا ہے۔ البتہ عدالت نے گواہی نہ دینے پر چیلسی پر عائد جرمانہ معاف کرنے کی استدعا مسترد کر دی۔ جج نے حکم دیا کہ چیلسی کو دو لاکھ 56 ہزار ڈالر جرمانے کی مد میں ادا کرنے ہوں گے۔
چیلسی کو وکی لیکس کے لیے جاسوسی اور امریکی فوج کی اہم دستاویزات لیک کرنے کے الزامات کے تحت قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔ چیلسی پر یہ الزام تھا کہ اُنہوں نے افغان جنگ اور امریکہ فوج سے متعلق ہزاروں حساس دستاویزات اور پیغامات وکی لیکس کو فراہم کیے۔
چیلسی کو 2010 میں عراق سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ سات سال تک فوج کی زیرِ حراست رہیں۔ چیلسی کا موقف رہا ہے کہ وہ 2013 میں گواہی دے چکی ہیں، لہذٰا دوبارہ گواہی دینا ضروری نہیں سمجھتیں۔
اُنہیں اس جرم کی پاداش میں 35 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، لیکن سابق امریکی صدر براک اوباما نے 2017 میں اُن کی بقیہ سزا معاف کر دی تھی۔
چیلسی کی قانونی ٹیم کے ایک رُکن نے دعویٰ کیا کہ بدھ کو چیلسی نے حراستی مرکز میں خود کشی کی کوشش کی، جس پر وہ اسپتال میں زیرِ علاج بھی رہی ہیں۔
قانونی ٹیم کے رُکن اینڈی اسٹیپنین کا کہنا تھا کہ چیلسی ناروا سلوک کے باعث گرینڈ جیوری کے سامنے گواہی سے گریزاں تھیں۔
چیلسی میننگ نے 2007 میں امریکی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اُنہوں نے اپنی جنس تبدیل کرائی تھی۔ اس سے قبل اُن کا مردانہ نام بریڈلی میننگ تھا۔ چیلسی امریکی فوج میں خفیہ معلومات کے تجزیہ کرنے کے شعبے میں تعینات تھیں۔
وکی لیکس کی بنیاد آسٹریلین شہری جولین اسانج نے 2006 میں رکھی تھی۔ اس کا مقصد انٹرنیٹ کے ذریعے خفیہ معلومات اور اہم راز افشا کرنا تھا۔
جولین اسانج پر یہ الزام بھی لگایا گیا تھا کہ اُنہوں نے چیلسی میننگ کے ساتھ مل کر پینٹاگون کے حساس کمپیوٹر نظام تک رسائی حاصل کی۔ جولین اسانج اس وقت لندن کی جیل میں قید ہیں، البتہ امریکی حکام یہ مطالبہ کرتے رہے ہیں کہ اُنہیں امریکہ کے حوالے کیا جائے۔