چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے پشاور میں سپریم کورٹ رجسٹری میں صحت وصفائی سمیت کئی کیسوں کی سماعت کی۔ انہوں نے اعلیٰ صوبائی حکام کو عدالت میں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں لیڈی ریڈنگ اسپتال کا دورہ کیا۔ مجھے وہاں کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ آپ کی حکومت نے 5سالوں میں کیا کیا؟
چیف سیکرٹری اور ہیلتھ سیکرٹری عدالت کو جواب نہیں دے سکے۔اس پر عدالت نے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کو پیش ہونے کا حکم دیا۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے استفسار کہا کہ ہم اسپتال گئے وہاں کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ آپ کو معلوم ہے کہ پشاور کی آبادی کتنی ہے؟ کتنا فضلہ نہروں میں پھینکا جا رہا ہے؟
جواب میں وزیر علیٰ چپ رہ گئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا کام عوام کو مطمئن کرنا ہے جو آپ نہیں کر پائے۔ آپ دعوے کرتے ہیں کتنے نئے اسپتال اور سکول بنائے ہیں؟
وزیر اعلیٰ نے جواب دیا مجھے ایسے حالات ملے کہ اسکولز اور اسپتالوں کا اسٹرکچر تباہ تھا۔
چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا وزیر علٰی صاحب۔ ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگ رہا ہے۔ اصل عزت عوام کی خدمت کرنا ہے۔ مجھے ہر جگہ سے نا امیدی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا میرے آنے کے ایک ہفتے سے یہاں صفائیاں چل رہی ہیں مجھے سب معلوم ہے۔
چیف جسٹس کا پشاور کے پانی کا پنجاب سے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیتے ہوئے واٹر سیفٹی حکام سے کہا کہ آپ کے پاس نہ لیبارٹری ہے نہ اعلیٰ مشینری ہے۔ آپ پانی کیسے ٹیسٹ کروا تے ہیں۔ عدالت نے پشاور کے مختلف مقامات سے پانی کے نمونے لینے کا حکم بھی دیے دیا۔
سیکیورٹی اور پروٹوکول
آئی جی پی خیبر پختون خوا صلاح الدین خان محسود نے جمعرات کے روز عدالت میں اہم شخصيات کے پروٹوکول اور سیکیورٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کی جس میں بتایا گیا تھا کہ تین ہزار اہل کار مختلف افراد کی سیکیورٹی پر معمور ہے۔
چیف جسٹس سپریم کورٹ نے صوبہ بھر میں مختلف شخصيات کی حفاظت پر مامور پولیس سیکیورٹی عملہ کی واپسی کے احکامات جاری کر دیئے ۔
چیف جسٹس کے احکامات پر فوری عمل کرتے ہوئے صلاح الدین خان محسود نے تمام ریجنل پولیس افسروں کو سیاسی ومذہبی راہنماؤں، افسروں اور پرائیویٹ اشخاص کے پاس گارڈز اور گن مینوں کو فوری طور پر متعلقہ پولیس لائنز ہیڈ کوارٹرز میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔
جمعے کی صبح آئی جی پی دوبارہ پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ 1769 افراد سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی ہے۔
چیف جسٹس کا آئی جی خیبر پختون خوا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے بہت اچھا کام کیا آپ کا شکریہ‘۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی کورٹ کسی کو سلیوٹ کر سکتا ہے تو میں آئی جی کو سلیوٹ پیش کرتا ہوں۔
عطائی ڈاکٹر
سپریم کورٹ آف پاکستان پشاور برانچ رجسٹری میں عطائیوں سے متعلق کیس کی سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ایک ہفتے کے اندر تمام عطائیوں کو ختم کرنے کا حکم دیا۔
چیئرمین ہیلتھ کمشن نے بتایا کہ صوبے میں15 ہزار عطائی ڈاکٹر ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے کتنے ایکشن لیے اور کتنے عطائیوں پر پابندی لگائی۔
چیئرمین ہیلتھ کمشن نے جوب دیا 122 پر پابندی لگائی ہے
آپ تنخواہ کتنی لیتے ہیں؟
چیئرمین ہیلتھ کمشن نے جواب دیا کہ پانچ لاکھ روپے۔
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ تنخواہ آپ کی 5 لاکھ اور کام صفر ہے۔
انہوں نے چیف ایکزیکٹو ہیلتھ کیئر کمشن اور چیف سیکرٹری خیبر پختو نخوا پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر ایک ہفتے میں عطائیوں کو ختم کرسکتے ہو تو کرو، ورنہ استعفی دے دو۔
سانحہ آرمی پبلک سکول
سانحہ اے پی ایس میں قتل ہونے والوں کے لواحقین کورٹ روم آئے جہاں ایک طالب علم اسفند کی والدہ نے چیف جسٹس سے کہا کہ ان کے ننھے بچے مارے گئے مگر ابھی تک انہیں انصاف نہیں ملا۔ انصاف کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں کوئی ہماری مدد نہیں کررہا۔
چیف جسٹس نے آرمی پبلک سکول میں مارے جانے والے بچوں کے کیس کے لیے ایک ہفتے کا وقت مانگا۔
اے پی ایس شہدا فورم کے وکیل ایڈوکیٹ فضل خان نے وائس اف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس کو اس کیس پر سو موٹو ایکشن لینا چاہئے تھا مگر انہوں نے ایک ہفتے کا وقت مانگا ہے۔
فضل خان نے بتایا کہ چیف جسٹس نے کہا کہ وہ اے پی ایس کا کیس سننے کے لئے ان تمام والدین کو بلائیں گے تاکہ تمام معاملات کو آرام کے ساتھ سننا جائے۔
شہدا فورم کے وکیل نے کہا کہ اس سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے خیبرپختونخوا کے چیف سیکرٹری کو کمشن بنانے کا کہا مگر انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ان کی اتنی طاقت نہیں ہے۔
یاد رہے 16 دسمبر 2014 کو پشاور کے آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں نے حملہ کرکے 132 معصوم طا لب علموں سمیت 144 افراد کو قتل کر دیا تھا جن کے لواحقین تین سال بعد بھی انصاف نہ ملنے پر شاکی ہیں اور اکثر وبیشتر والدین انصاف کے حصول کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔
جسٹس دوست محمد ریفرنس
چیف جسٹس ثاقب نثار نے بار سے اپنی تقریر کے دوران جسٹس دوست محمد کے ریفرنس نہ لینے پر بھی اظہار خیال کیا ۔ انہوں نے کہا ریٹائرمنٹ سے ایک ہفتے قبل میری دوست محمد خان سے بات ہوئی تھی۔ ہم نے ان کے نام کا خوبصورت تحفہ بھی تیار کیا، مگر دوست محمد خان صاحب نے کال کرکے ریفرنس لینے سے معذرت کرلی۔
انہوں نے کہا دوست محمد نے کہا بیٹی کی شادی ہے اس میں مصروف ہو۔ پھر ہم نے ان کو گھر پر بلانے کی دعوت دی۔ وہ گھر آئے اور ان کو وہ تحائف بھی دیئے اور لنچ بھی کیا۔
چیف جسٹس نے کہا ۔’ بار کو یقین دلاتا ہو کہ میں نے ان سے تقریر سے متعلق کوئی بات نہیں کی‘۔ اب بھی میں خان صاحب کو دعوت دیتا ہوں کہ آ جائیں ۔ ہم ان کو ویسے ہی ریفرنس دیں گے۔
چیف جسٹس ثاقب نثار سپریم کورٹ رجسٹری پشاور میں دو دن کیسز سننے کے بعد چارسدہ جوڈیشل کمپلیکس روانہ ہوگئے۔ پشاور میں قیام کے دوران انہوں نے سانحہ اے پی ایس میں دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہونے والوں کے لواحقین کے کیس کے ساتھ ساتھ خیبرپختونخوا میں صاف پانی کی فراہمی، پولیس اور اسپتالوں کی کارکردگی بارے میں مقدمات کی سماعت کی۔