“انہوں نے چار ماہ قبل مجھ سے میر اکلوتا چار سالہ بچہ بغیر کسی کورٹ آرڈر کے چھینا اور کرونا کا بہانہ بنا کر اسے گیارہ دن ایک کمر ے میں تنہا اس طرح رکھا جیسے وہ گوانتا نامو بے کا کوئی قیدی ہو۔ کسی چار سالہ بچے کے لئے اس سے زیادہ ذہنی اور نفسیاتی اذیت کیا ہو سکتی ہے “ ؟ وہ دھاڑیں مار مار کر رورہی تھی اور پولیس اور سوشل سروسز اور فیملی سروسز کے اہلکاروں پر شدید غصے میں تھی جن کے بارے میں اس کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس کے بچے کو اس سے الگ کرنے کا کوئی بھی قانونی جواز نہیں تھا"۔
یہ کہانی ہے نیو یارک کی رہائشی بشریٰ احمد کی جس نے وی او اے کو ایک انٹر ویو میں بتایا کہ امریکی پولیس اور امریکی سوشل سروسز کے ڈپارٹمنٹ میں کچھ اہلکار اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قانون شکنی کے مرتکب ہو رہے ہیں جنہیں اس قانون شکنی پر سزا دی جانی چاہئے اور اسے اس کا بچہ فوری طور پر واپس کیا جانا چاہیے۔
بشریٰ احمد نےجو ایک پاکستانی ہیں اور امریکہ میں گرین کارڈ ہولڈر ہیں, کہا کہ ان کا بچہ بالکل صحت مند ہے اسے کبھی کوویڈ نہیں ہوا ، وہ ذہنی طور پر بھی بالکل درست ہے اور وہ اس کی پروررش بہترین طریقے سےکر رہی تھیں۔
اس کو ایک محفوظ ، پرسکون اور پر شفقت ماحول میں رکھنے کے لئے وہ کوئی نوکری کرنے کی بجائے پاکستان سے لائی ہوئی اپنی جمع پونجی استعمال کر رہی تھیں صرف اس لیے کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ دن رات رہ سکیں اور اس کے لئے کسی قسم کی کوتاہی یا غفلت کی مرتکب نہ ہوں۔
لیکن ان کا کہنا تھا کہ ان کے بچے کو ایک پیار کرنے والی اور بہترین پرورش کرنے والی اصل ماں سے الگ کر کے ایک ہسپانوی گھرانے کے پاس رکھا گیا ہے جو پہلے ہی اپنے چار بچوں کی پرورش کر رہا ہے ۔ بشریٰ کے آنسو تھم نہیں رہے تھے ۔
“اس گھرانے کی زبان اور رہن سہن اس ننھے سے بچے کے لئے بالکل اجنبی ہے اور ننھے سے ذہن کے لئے اس اجنبی ماحول میں رہنا کس قدر اذیت ناک ہو سکتا ہے ? یہ خیال ہی میری راتوں کی نیند اور دن کا چین اڑارہا ہے” ۔ بشریٰ نے رندھی ہوئی آواز میں بتایا ۔
بشری احمد کی کہانی امریکہ میں کوئی نئی کہانی نہیں ۔ ایسی کہانی امریکہ بھر میں بہت سے دوسرے والدین بھی سنا تے ہیں ۔
حال ہی میں میسا چوسیٹس کے دار الحکومت بوسٹن میں دو کم سن بچوں کے والدین سارہ پرکنس اور جوشوا سیبے کی اسی طرح کی کہانی میڈیا میں نمایاں ہوئی جنہوں نے بتایا کہ کس طرح پولیس اور سماجی بہبود کے اہلکارو ں نے نصف شب کوان کے گھرپر دستک دی اور بغیر کسی عدالتی حکم نامے کے ان کے دو ننھے بچوں کو ان سے چھین کر لے گئے جن میں سے ایک کی عمر تین ماہ اور دوسرے کی تین سال تھی۔
انہیں اپنے بچے واپس مل گئے لیکن انہیں اس کے لئے سخت ذہنی ، نفسیاتی اور مالی پریشانیوں اور صبر آزما قانونی کارروائیوں سے گزرنا پڑا ۔
بشریٰ احمد اور سارہ اور جوشوا کی کہانیوں کے پیچھےبچوں کی سیفٹی اور تحفظ کا سسٹم اور امریکہ کا وہ قانون کار فرما ہے جس کے تحت کسی بھی بچے کو کسی بھی خطرناک ماحول سے تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے اور اس کے ساتھ زیادتی یا اس کے حقوق کی خلاف ورزی کے مرتکب خواہ اس کے والدین ہی کیوں نہ ہوں، اسے ان سے بچایا جانا ضروری ہے۔
SEE ALSO: تارکینِ وطن بچے امریکہ میں پیدا ہونے والے بچوں کے مقابلے میں زیادہ کامیاب کیوں؟امریکہ میں بچوں کے تحفظ کی صورتحال:
امریکہ میں آپ کوکوئی بچہ نہ تو گھر میں اور نہ ہی سڑک پراکیلا والدین یا کسی نگران کےبغیر نظر آئے گا۔ یہاں کوئی والدین اپنے بچوں کےساتھ مار پیٹ نہیں کر سکتے اور نہ ہی کوئی جسمانی یا نفسیاتی سزا دے سکتے ہیں کیوں کہ اگر اس بارے میں متعلقہ ڈپارٹمنٹ کو کوئی شکایت درج کرادی جائے تو والدین کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے اور ان کے بچے کو ان سے الگ کر کے چائلڈ ویلفئیر مرکز میں رکھ دیا جاتا ہے اور کافی قانونی کارروائیوں کے بعد انہیں اپنا بچہ واپس ملتا ہے۔
اسکولوں میں اساتذہ بچوں پر تشدد کے کسی بھی قسم کے آثار دیکھنے پر فوراً تحقیق کرتے ہیں کہ کہیں گھر میں یا گھر کے باہر انہیں کسی قسم کے تشدد یا ہراساں کیے جانے کا سامنا تو نہیں ہو رہا ۔
بچوں کو اسکولوں میں یہ سکھا دیا جاتا ہے کہ ا گر ان کے والدین یا ان کے گھر میں کوئی بھی ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشدد کرے تو وہ ایمر جینسی نمبر 911 کو کال کر کے اس بارے میں انہیں بتادیں۔ جس کے بعد بچے کو اس ماحول سے نکالنے اور تشدد سے بچاو کا بندو بست کیا جاتا ہے ۔
بچوں کے تحفظ کا ادارہ چائلڈ پروٹیکٹیو سروسز یا سی پی ایس
امریکہ میں بچوں کو قانونی تحفظ دینے اور انہیں گھر یا گھر سے باہر کسی بھی قسم کی زیادتی سے بچانے کے لئے امریکہ میں جو ادارہ کام کرتا ہے وہ چائلڈ پروٹیکٹیو سروسز یا سی پی ایس کہلاتا ہے۔
ورجینیا کے ڈپارٹمنٹ آف سوشل سروسز کی ویب سائٹ پر دی گئی معلومات کے مطابق بچے کے بہترین مفاد میں بنایا گیا امریکی قانون بچے کو ہر قسم کے تشدد یا غیر محفوظ ماحول سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے والدین اور ان کے خاندانوں پر خاص ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جن کی تعمیل نہ کرنے پر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی ہوسکتی ہے۔
SEE ALSO: ٹرمپ دور میں والدین سے الگ کئے گئے 700 بچوں کا خاندانوں سے دوبارہ ملاپویب سائٹ کے مطابق ادارے کے چائلڈ پروٹیکٹیو سروسز کے ہر مرکز میں چوبیس گھنٹے ایک ہاٹ لائن کا بندو بست ہوتا ہے جس پر 18سال سے کم عمر کے کسی بھی بچے کی جانب اس کے والدین یا سر پرستوں کی کسی بھی قسم کی لاپرواہی یا زیادتی سے متعلق شکایت کوئی بھی پڑوسی یا اس بارے میں معلومات رکھنے والا کوئی بھی شخص درج کراسکتا ہے ۔
وہ چاہے تو اپنا نام خفیہ بھی رکھ سکتا ہے لیکن اس کی شکایت کی رپورٹ پر مقامی ادارہ پوری طرح سے تحقیق کر تا ہے اور یہ تعین کرنے کے بعد کہ واقعی بچہ کسی قسم کی زیادتی کا شکار ہو رہا ہے اسے اس زیادتی سے بچانے اور آئندہ اس زیادتی کے اعادے کو روکنے کے لیے اقدامات کرتا ہے۔
اس قانون کے تحت بہت سی ریاستوں میں سوشل سروسز کے اداروں کے پاس یہ اختیار ہے کہ وہ کسی عدالتی حکم کے ساتھ یا کسی ؑعدالتی حکم کے بغیر پولیس کی مدد سے قانونی کارروائی کر کے بچے کو اس ماحول سے الگ کردے اور اسے اس کے والدین یا اس کے سر پرست خاندان سے الگ کر کے کسی مقامی چائلڈ ویلفئیر مرکز پر منتقل کر دے ۔
یہ قانون بلا شبہ بچے کی سیفٹی کو اولیت دیتا ہے لیکن کبھی کبھی اس کا ناجائز استعمال والدین کے لئے ایک خوفناک صورتحال کو جنم دے رہا ہے ۔
ایسو سی ایٹڈ پریس کے مطابق جوشوا اور سارہ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو واپس لینے میں اس لئے کامیاب ہوئے کہ وہ بچوں کی واپسی کی قانونی کارروائیوں پر خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے تھے۔
لیکن وہ پولیس اور سوشل سروسز کے اہلکاروں کو اس قانون کےناجائزاستعمال سے روکنے اوران والدین کے لئے جو اس قانونی کارروائی پر خرچ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ، وفاقی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔
SEE ALSO: امریکہ: بچوں سے جبری مشقت لینے پر تین میکڈونلڈز فرنچائز پر جرمانہبچوں کے تحفظ کا قانون
بچوں کو قانونی تحفظ دینے کا قانون کیا ہے ؟ پیسیفک لیگل فاونڈیشن کے اٹارنی نے وی او اے کو ایک انٹرویو میں اس بارےمیں تفصیلات فراہم کیں۔ یہ وہ ادارہ ہے جس کے ذریعے جوشوا سیبے اور سارہ پرکنس وفاقی عدالت میں مقدمہ دائر کر رہے ہیں ۔
اٹارنی گلین ای روپر نے بتایا کہ امریکی آئین کی چوتھی اور 14ویں ترمیم کے تحت 18 سال سے کم عمرکے بچوں کو اپنے گھرو ں میں خود کو محفوظ محسوس کرنا چاہئے اور انہیں اس وقت ان کے والدین، سر پرستوں اور ان کے گھروں سے الگ کیا جا سکتا ہے جب ان کے لئے کوئی فوری خطرہ لاحق ہو ، یا کسی عدالتی کارروائی کے تحت والدین یا سر پرستوں کی کوتاہی ، غفلت یا زیادتی ثابت ہو جائے اور ان سے ان کی سر پرستی کے حقوق واپس لے لئے جائیں۔
اٹارنی روپر نے بتایا کہ ان آئینی ترامیم کے تحت، کسی فوری خطرے کی غیر موجودگی میں کسی بھی فرد کوکسی عدالتی وارنٹ کے بغیر نہ تو حراست میں لیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کے گھر کی تلاشی لی جا سکتی ہے۔
تاہم کچھ ریاستوں میں پولیس اور سماجی بہبود کے اداروں کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ یہ تعین کر لیں کہ بچے کو والدین یا گھر میں کوئی فوری خطرہ لاحق ہے تو وہ اسے عدالتی حکم نامے کےبغیر بھی اپنی تحویل میں لے کر اسے کسی محفوظ سنٹر یا فوسٹر گھرانے کے سپرد کر سکتے ہیں۔
اور یہ ہی وہ اختیار ہے جس کے بارے میں اکثر ایسی شکایات سامنے آجاتی ہیں کہ پولیس اور سماجی بہبود کے اداروں کی جانب سے کبھی کبھی اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کیا گیا جو ان آئینی شقوں کی خلاف ورزی کا موجب بنتا ہے جس کے نتیجے میں والدین اور خاندانوں کو مالی اور ذہنی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔
میسا چوسیٹس کے جوشوا سیبےاور سارہ پرکنس کا کیس
جوشوا اور سارہ کے کیس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے پیسیفک لیگل فاونڈیشن کے اٹارنی، گلین ای روپر ، نے بتایا کہ ان کا ادارہ ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور لوگوں کو اپنے جائز قانونی حقوق کے حصول میں مددکے لیے مفت قانونی خدمات فراہم کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ادارہ جوشوا اور سارہ کی جانب سے بوسٹن کی پولیس اور متعلقہ سوشل سروسز کے اہلکاروں کے خلاف وفاقی عدالت میں ہرجانے کا مقدمہ اس لئے دائر کررہا ہے کہ جوشوا اور سارہ کے بچوں کو والدین کی طرف سے کسی فوری خطرے کا سامنا نہیں تھا۔
وہ اپنے تین ماہ کے بچے کو بخار کی حالت میں ہسپتال لے کر گئے تھے جہاں ڈاکٹروں کو نمونیہ کے ایک ٹیسٹ کے دوران اس کی پسلی میں ایک ہفتے قبل کے ایک معمولی فریکچر کا علم ہواجو کافی حد تک ٹھیک ہو چکا تھا اور اس کے لیے مزید کسی علاج کی ضرورت نہیں تھی لیکن انہوں نے اس کی بنیاد پر اس کیس کو سوشل سروسز ڈپارٹمنٹ کے حوالے کر دیا جس کے اہلکاروں نے نہ صرف اس تین ماہ کے بچے کو بلکہ ان کے دوسرے تین سالہ بچے کو بھی ان سے الگ کر دیا ۔
روپر نے کہا کہ کسی ایمر جینسی صورتحال کے بغیر پولیس یا سماجی بہبود کے ادارے کی طرف سے بچوں کو والدین سے الگ کرنے اور انہیں غیر ضروری طور پر ہراساں اور پریشان کرنے کی ایسی کارروائی قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ اور اسی بنیاد پرجوشوا اور سارہ، میساچوسیٹس کی پولیس اور ویلفئیر سنٹر پر ہرجانے کا مقدمہ دائر کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ مقدمہ جیت جاتے ہیں اور میسا چوسیٹس کی پولیس اور سماجی بہبود کے ادارے اور پولیس کے متعلقہ اہلکاروں کےلیے عدالت ہرجانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنادیتی ہے تو یہ اس قسم کے دوسرے مقدمات کے لئے ایک مثال بن جائے گا ۔
SEE ALSO: ساٹھ فیصد امریکی نوعمر لڑکیاں مایوسی اور نا امیدی کا شکار ہیں: تحقیقاٹارنی روپر نے کہا کہ ایسا نہیں ہے کہ ایسے کسی فیصلے کی بنیاد پر میسا چوسیٹس یا دوسری ایسی ریاستوں میں جہاں کسی کورٹ آرڈر کے بغیر بچوں کو والدین سے الگ کرنے کی پالیسی اور قانون موجود ہے اسے لازمی طور پر تبدیل کر دیا جائے گا تاہم اس سے ان پر یہ دباو ضرور پڑ سکتاہے کہ وہ اس بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کریں ۔
جب کہ پولیس اور سماجی بہبود کے اداروں پر یہ دباؤ پڑ سکتا ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی عدالتی حکمنامہ نہیں ہے یا وہ کسی عدالتی حکمنامے کے بغیر کسی کارروائی کا اختیار رکھتے ہیں تو وہ بچے کے لئے ایمرجینسی صورتحال کا تعین کرتے ہوئے حالات اور واقعات کے بارے میں خوب چھان بین کے بعد کوئی فیصلہ کریں ۔
اٹارنی کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے بہت سے وہ خاندان جن کے بچو ں کو کسی مناسب عدالتی حکمنامے کےبغیر ان سے الگ کر دیا جاتا ہے ،اس قسم کی ذہنی اور مالی پریشانیوں کا شکار ہونےسے بچ جائیں گے۔
یہ مقدمہ اس بارے میں بحث کو بھی اجاگر کررہا ہے کہ اس کا تعین کب اور کیسے کیا جائے کہ بچوں کے والدین یا نگرانوں نے ان کی حفاظت میں کوئی کوتاہی برتی ہے یا انہیں کسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے ۔
نیو یارک کی بشریٰ احمد ا بھی اپنے بچے کو واپس لینے کے لئے قانونی کارروائیوں کا سامنا کررہی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ان کے کیس کو کوئی بھی عدالت سن لے تو وہ یقینی طورپر مقدمہ جیت جائیں گی ۔
لیکن ان کے بچے کا کیس کب سنا جائے گا اور اس بارے میں کب کوئی فیصلہ سامنے آئے گا وہ اس گھڑی کی شدت سے منتظر ہیں تاہم انہوں نے وائس آف امریکہ کے بار بار پوچھنے پر بھی اس بارے میں کچھ نہیں بتایا کہ ان کا بچہ ان سے کیوں الگ کیا گیا۔
وائس آف امریکہ نیو یارک میں سوشل سروسز کے متعلقہ شعبےسے ان کا موقف جاننے کے لئے ان سے رابطے میں ہے لیکن فی الحال ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں آیاہے ۔