درجنوں تحقیقی مطالعوں سےیہ بات سامنے چکی ہےکہ امریکی نوجوان بحران کا شکار ہیں، انہیں ذہنی صحت کے ایسے چیلنجز کا سامنا ہے جن کی اس سے قبل کوئی نظیر موجود نہیں اور جو خاص طور پر نوعمر لڑکیوں پر بوجھ ڈال رہے ہیں۔
سب سے زیادہ واضح اعداد و شمار میں بیماریوں کے کنٹرول اور روک تھام کےسینٹرز(سی ڈی سی )کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً 60 فیصد امریکی لڑکیوں میں مسلسل اداسی اور ناامیدی پائی گئی ہے۔ لڑکوں میں بھی اس کی شرح بڑھ رہی ہے، لیکن لڑکیوں کے مقابلے میں وہ اس سے تقریباً نصف متاثر ہوئے ہیں۔
بالغوں کے اس بارے میں اپنےنظریات ہیں، لیکن نوعمر خود کیا کہتے ہیں؟ کیا سوشل میڈیا ان کی پریشانیوں کی جڑ ہے؟ کیا ان کے مرد ساتھی کسی طرح ان مسائل ے مستسنیٰ ہیں، یا وہ مسئلہ کا حصہ ہیں؟ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس سلسلے میں چار ریاستوں میں پانچ لڑکیوں کے انٹرویو کیےاور موضوع کی حساسیت کے پیش نظر صرف ان کے نام کا پہلا حصہ شائع کرنے پر اتفاق کیا۔ ان نوعمر لڑکیوں نے انٹرویو کے دوران بعض اوقات سنجیدکی اور بعض مواقع پر حیرت انگیز سمجھ اور بصیرت کا مظاہرہ کیا۔
امیلیا: عمر سو لہ سال
امیلیا، کا تعلق ریاست الی نوائے سے ہے۔ وہ گانا پسند کرتی ہے اور سرجن بننا چاہتی ہے، وہ کہتی ہے،’’ہم بہت مضبوط ہیں اور ہم بہت کچھ سے گزرتے ہیں‘‘۔ لیکن اسے ڈپریشن اور پریشانی بھی ہے۔
حکومتی رپورٹ میں سروے کیے گئے امریکی ہائی اسکول کی 13فیصدلڑکیوں کی طرح، وہ خودکشی کی کوشش سے بچ جانے والی لڑکی ہے۔ 2020 کی اس کوشش کے بعد اسےتھراپی کے بعد اسپتال میں داخل ہونا پڑا تھا۔ لیکن امیلیا کو اسکول کے ایک لڑکے کی طرف سے غنڈہ گردی، زہریلی دوستی اور دھمکی آمیز دھمکیوں کا بھی سامنا رہا جس نے کہاتھا کہ وہ ’’ریپ کی مستحق ہے‘‘۔
سی ڈی سی کی رپورٹ کے مطابق ہر 10 میں سےایک سے زیادہ لڑکیوں نے کہا کہ انہیں جنسی تعلقات پر مجبور کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے تواتر کے ساتھ کیے جانے والے سروے میں پہلا اضافہ نوٹ کیا گیا۔
جنسی دھمکیاں ان پریشرز میں سے صرف ایک ہیں جن کا سامنا نوعمر لڑکیوں کو کرنا پڑتا ہے۔ امیلیا نے کہا کہ ’’ہم ایک ایسی دنیا میں زندہ رہنے کی کوشش کر رہے ہیں جو ہمیں کھا جانےپر تلی ہوئی ہے‘‘۔
ایما، جارجیا میں ایک 18 سالہ آرٹسٹ ہیں، جو توجہ مرکوز کر نےمیں کمی کے عارضے اور کبھی کبھار ڈپریشن کا شکار ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ماہرین تعلیم اور کالج کے بارے میں فکرمندی تناؤ کی ایک بڑی وجہ ہیں۔
ایما نے مزید کہا کہ ’’ میں اور میرے دوست سب ہی کو احساس ہے کہ ہر کوئی دنیا کے دباؤ اور سماجی مسائل سے تھک گیا ہے اور یہ فکر کہ مستقبل میں وہ کہاں جانے والے ہیں، یہ تمام چیزیں جمع ہو کرآخرکار آپ کو توڑ دیتی ہیں‘‘۔
15 سالہ زوئی کی پرورش مسیسی پی میں ایک سخت لیکن محبت کرنے والی اکیلی ماں نے کی جو اس پر اسکول اور زندگی میں کامیابی کے لیے دباؤ ڈالتی ہیں۔
زوئی نے کہا، ’’اسکول اعصاب شکن ہو سکتا ہے اور آپ کی دماغی صحت کو اتنا متاثر کر سکتا ہے کہ آپ اس وقت تک اسے پہچان بھی نہیں پاتے، جب تک کہ آپ اس جگہ پر نہ ہوں جہاں آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کو کیا کرنا ہے‘‘۔
اپنی کلاس میں واحد سیاہ فام بچی ہونے کی احساس کے ساتھ زوئی کے لیے کسی دوست کی تلاش بھی ایک ایسی جدوجہد تھی جو گہری افسردگی میں ختم ہوئی۔
کئی لڑکیوں نے کہا کہ انہیں معاشرے کے معیارات کی وجہ سے اضافی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے ان کی نظر پر بہت زیادہ توجہ مرکوز ہوتی ہے۔
#MeToo تحریک کا آغاز اس وقت ہوا جب یہ لڑکیاں کافی کم عمر تھیں، لیکن اس نے وبائی مرض کرونا وائرس کے دوران شدت اختیار کی اور یہ نو عمر لڑکیاں بن بلائے جنسی پیش رفت سے بہت زیادہ آگاہ ہیں۔ان کا خیال ہے کہ اس بارے مٰیں لڑکے کم جانتےہیں۔
لڑکیاں گھٹیا لطیفوں، نامناسب طور پرچھونے، جنسی دھمکیوں یا حقیقی تشدد کا حوالہ دیتی ہیں۔ لڑکیوں کا کہنا ہے کہ ناپسندیدہ توجہ بہت زیادہ دباؤ کی وجہ بن سکتی ہے۔
نیو جرسی کی 18 سالہ سیا نے کہا کہ تقریباً ہر وہ لڑکی جسے وہ جانتی ہے جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہے۔ ’’یہ میرے لیے معمول کی بات ہے‘‘۔
سیا کا کہنا تھا کہ ، ’’جب آپ لڑکی کے طور پر اکیلے چل رہے ہوتے ہیں، تو آپ خود بخود اس خطرے سے دوچار ہو جاتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ یہ بہت افسوسناک ہے‘‘۔
مسی سیپی کی ٹین ایجر میکیناِ
مسی سیپی میں ایک ہائی اسکول کی سینئر میکینا نے کہا کہ وہ اور ان کی فرینڈز اپنے جسم کو چھپانے کے لیے کبھی کبھاربہت ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنتی ہیں لیکن لڑکے ہر صورت میں"تبصرہ کرتے ہیں‘‘ ۔
انہیں ڈپریشن ہےجس کا علاج ہورہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک ایسی کمیونٹی میں پروان چڑھی ہیں جہاں ذہنی طور پرصحت مند نہ ہونا اب بھی بعض اوقات کلنک کا ٹیکہ ہے۔
نوعمروں کی صحت کی وکالت کرنے والے گروپ کے ساتھ کام کرنے والی میکینا نے کہا، ’’اکثر سیاہ فام کمیونٹی میں جذبات کا اظہار کرنے کے لیے ہماری حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی ہے۔ کیونکہ پچھلی نسلوں نے برداشت کیاتھا‘‘۔
انہوں نے کہا ،’’ہم سے توقع کی جاتی ہےکہ ہم اپنے دل لوہے کی طرح سخت کرلیں لیکن کبھی کبھی ایسا نہ ہونا بھی ٹھیک ہے‘‘۔
مارچ میں دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ 2019 میں، وبائی مرض سے پہلے، دماغی صحت کی وجوہات کی بنا پر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں میں سے تقریباً 60 فیصد لڑکیاں تھیں۔ ایک دہائی پہلے، فرق صرف معمولی تھا۔
ڈاکٹر حنا طالب، جو نوجوانوں کی ادویات کی ماہر اور امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کی ترجمان ہیں , کہتی ہیں کہ لڑکیاں تاریخی طور پر ڈپریشن اور اضطراب سے غیر متناسب طور پر متاثر ہوئی ہیں۔ ’’ لیکن یہ اعدادوشمار کم از کم جزوی طور پر اس حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں کہ لڑکیاں اکثر احساسات اور جذبات کے بارے میں لڑکوں کے مقابلے زیادہ بات کرتی ہیں‘‘۔
مارچ میں دی جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ 2019 میں، وبائی مرض سے پہلے، دماغی صحت کی وجوہات کی بنا پر اسپتال میں داخل ہونے والے بچوں میں سے تقریباً 60 فیصد لڑکیاں تھیں۔
ایک دہائی پہلے، فرق صرف معمولی تھا۔ طالب نے کہا کہ کووڈ۔19 لاک ڈاؤن نے ایک اور جہت کا اضافہ کیا، جس سے تعلیمی اور سماجی زندگیوں کو آن لائن متاثر کیا گیا۔
کچھ بچے نوعمروں کے طور پر وبا میں داخل ہوئے اور زیادہ پختہ عمر کے ساتھ باہر آئے۔ وہ ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں اسکولوں میں فائرنگ، تیزی سے بدلتی ہوئی آب و ہوا، سماجی اور سیاسی بدامنی، اور تولیدی نگہداشت اور ٹرانس جینڈر کے حقوق پر پابندیاں ہیں۔
ڈاکٹر حنا طالب نے کہا کہ اعداد و شمار اور رپورٹیں بتاتی ہیں کہ بہت سے نوجوان جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’’ بچوں کے محفوظ رہنے کی توقع کرنا غیر حقیقی ہو سکتا ہے۔ یہ ایک پوری نسل کو تبدیل کر سکتی ہے‘‘۔
(ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ)