نرودا کی موت طبعی تھی یا اُنھیں زہر دیا گیا تھا: رپورٹ

فائل

چلی کی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں انتباہ جاری کیا ہے کہ تفتیش سنہ 2011 میں شروع ہوئی تھی جو ابھی مکمل نہیں ہوئی، اور یہ کہ چھان بین کے باضابطہ حقائق ابھی سامنے نہیں آئے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق، انھیں ’پین کِلر‘ انجیکشن لگایا گیا تھا، جِس کے سبب اُن کے دِل کی دھڑکن بند ہوگئی تھی۔۔‘

چلی کی حکومت نے، جو 1973ء میں ملک کے نابیل انعام یافتہ پیبلو نرودا کی موت کی چھان بین کر رہی ہے، کہا ہے کہ ’عین ممکن ہے‘ کہ معروف شاعر، سفارت کار اور کمیونسٹ خیالات کے حامل نرودا ’کسی تیسرے فریق کی مداخلت کے نتیجے میں ہلاک ہوئے ہوں‘، جس سے کچھ ہی روز قبل جنرل آگسٹو پنوشے اقتدار میں آئے تھے۔

تاہم، چلی کی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں انتباہ جاری کیا ہے کہ تفتیش سنہ 2011 میں شروع ہوئی تھی جو ابھی مکمل نہیں ہوئی، اور یہ کہ چھان بین کے باضابطہ حقائق ابھی سامنے نہیں آئے، جن سے نرودا کے فوت ہونے سے متعلق پچھلے نتائج کی نفی ہوتی ہو۔ نرودا کو سرطان تھا اور بتایا جاتا ہے کہ اُن کی ہلاکت طبعی وجوہ کی بنا پر ہوئی۔

حکومت کی جانب سے جاری ہونے والی اس رپورٹ کے بعد ایک ہسپانوی اخبار، ’ایپاسے‘ میں ایک خبر چھپی ہے، جس میں نرودا کی ہلاکت کے بارے میں وزارت داخلہ کی دستاویز شامل کی گئی ہے۔ 25 مارچ، 2015ء کی اس دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ’شاعر کو ایک ’پین کِلر‘ انجیکشن لگایا گیا تھا، جِس کے سبب اُن کے دِل کی دھڑکن بند ہوگئی تھی، جو ہی اُن کی موت کا سبب بنا‘۔

رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے، ہفتے کے روز ’دی نیویارک ٹائمز‘ نے لکھا ہے کہ اس دستاویز میں دوا بھرے انجیکشن دیے جانے کےعزائم کے بارے میں کوئی ذکر نہیں، جسے نرودا کی پیٹ میں لگایا گیا تھا، بجائے ’درونِ ورید‘ لگائے جانے کے۔

اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں آیا یہ انجیکشن کس نے لگایا تھا۔ تاہم، کسی طبی مرکز کی جانب سے پیٹ میں انجیکشن کا لگایا جانا خلاف معمول طریقہ کار تھا۔

یہ خبر زد عام ہے کہ نرودا کو 11 ستمبر، 1973ء میں تختہ الٹے جانے کے واقع پر افسوس تھا، جس میں مارکسسٹ صدر، سلواڈور الندے کو اقتدار سے ہٹایا گیا اور پنوسے نے اقتدار پر قبضہ کیا۔

الندے کو صدارتی محل میں قید رکھا گیا تھا، اور عام خیال ہے کہ باغی افواج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے برعکس، اُنھوں نے خودکشی کرلی تھی۔

سرکاری چھان بین سے چلتا ہے کہ پنوشے کے دورِ حکومت میں، جس کا 1990ء میں خاتمہ ہوا، چلی کے ہزاروں باشندوں کو اذیت سے دوچار کیا گیا، لاپتا ہوئے یا پھر اُن کے سر قلم کیے گئے۔

اُن کی ہلاکت سے چند ہی روز قبل، نرودا نے اپنے ساتھیوں کو بتایا تھا کہ نئی فوجی حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کے لیے وہ ملک بدر ہونے کا سوچ رہے ہیں۔ بھاگ نکلنے کے منصوبے سے ایک ہی روز قبل، وہ فوت ہوئے۔

چلی میں نرودا کی ہلاکت اس حد تک متنازع بنی رہی کہ سنہ 2013میں حکومت نے اُن کی لاش کا طبی تجزیہ کرانے کے احکامات دیے۔

حکام کا کہنا ہے کہ ان تجزیات سے پتا چلا کہ زہر دینے کا دعویٰ درست ثابت نہ ہوا۔ تاہم، اُن کے اہل خانہ اور ڈرائیور نے پہلے کیے گئے طبی ٹیسٹ میں شامل نہ ہونے والے مواد کی دوبارہ چھان بین کی درخواست کی تھی۔

محبت کی لازوال نظموں کے باعث، نرودا مشہور ہیں، جنھیں سنہ 1971 میں ادب کا نوبیل پرائز دیا گیا۔ ساتھی نوبیل انعام یافتہ، گیبریل گارشیا مارکئیز نے ایک بار نرودا کے لیے کہا تھا کہ وہ ’بیسویں صدی میں کسی زبان کے سب سے بڑے شاعر تھے‘۔