چلی میں امدادی کارکن ا یک کان میں پھنس جانے والے 33 کان کنوں کو خوراک، ادویات اور بیرونی دنیا سے رابطے کے آلات پہنچانے کی کوشش کررہے ہیں ۔
کان کن چلی کے شمالی شہر کوپیاپو کے قریب ایک کان میں دو ہفتے قبل پھنس گئے تھے۔ عہدے داروں کا کہنا ہے کہ انہیں وہاں سے نکالنے میں چار ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔
گذشتہ ا توار زیر زمین پھنسے ہوئے کان کنوں کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ زندہ ہیں۔
کان کنوں کے ایک ساتھی نے ایک فرانسیسی نیوز ایجنسی کوبتایا کہ وہ کان کے اندر تقریباً 1.8 کلومیٹر کے علاقے میں آزادانہ نقل و حرکت کرسکتے ہیں۔
اتوار کے روز یہ پتاچلنے کے بعد کہ کان میں پھنسے ہوئے مزدور زندہ ہیں، انجنیئروں نے تقریباً سات سو فٹ موٹی سخت چٹان میں سوراخ کرکے انہیں امدادی سامان پہنچانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے سونے اور تانبے کی اس کان میں یہ حادثہ ایک ستون کے گرنے کے باعث پیش آیاتھا اور کان کے اندر کی غیر مستحکم صورت حال کے باعث ان کو نکالنے کے کام کو سست روی سے آگے بڑھانا پڑے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ وہ چٹان میں 15 سینٹی میٹر قطر کا ایک سوراخ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ مائیکروفون کے ذریعے پھنسے ہوئے کارکنوں سے بات چیت کی جاسکے۔
پھنسے ہوئے کان کنوں کے خاندان کے افراد مجوزہ سوراخ کے ذریعے اپنے عزیز وں کو خط بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں تاکہ ان کے حوصلے بلند رہیں۔
زیر زمین کان کا حادثہ پیش آنے کے 17 روز کے بعد چلی کے صدر سباستین پنرا نے کان کنوں کے زندہ بچ کے کااعلان کیاتھا۔انہوں نے نامہ نگاروں کو کان کنوں کا ایک خط دکھایا ، جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ وہ خیریت سے ہیں۔
کان کنوں نے اپنا خط ڈرل مشین کے اس برمے کے ساتھ نتھی کیا تھا، جس کے ذریعے ہنگامی امداد کی ٹیم نے ان تک پہنچنے کے لیے چٹان میں سوراخ کیا تھا۔
سوراخ کے ذریعے کان کے اندر700 فٹ کی گہرائی میں اتارے جانے والے ویڈیو کیمرے کے میں تمام کان کن دکھائی دے رہے تھے اور انہوں نے گرمی سے بچنے کے لیے اپنی قمیضیں اتاررکھی تھیں۔
کان کا یہ حادثہ پانچ اگست کو پیش آیاتھا۔ یہ واضح نہیں ہوسکا کہ حادثے کی اصل وجہ کیاتھی ۔ ماضی میں کئی حادثے پیش آنے کے بعد اس کان کو بند کردیا تھا اور کئی برسوں کی بندش کے بعد اسے حال ہی میں دوبارہ کھولا گیاتھا۔
چلی میں تابنے کی کئی کانیں موجود ہیں اور وہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ تابنا برآمد کرنے والا ملک ہے۔