چین اور بھارت نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق کیا ہے۔
چین کے اسٹیٹ کونسلر وانگ ژی اور بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے درمیان جمعرات کو ماسکو میں ملاقات ہوئی۔
اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے حالیہ سرحدی کشیدگی میں اضافے پر بات چیت کی اور کشیدگی کے خاتمے کے لیے پانچ نکات پر اتفاق کیا۔
دونوں ملکوں کی جانب سے جاری کیے گئے ایک مشترکہ اعلامیے کہا گیا ہے کہ سرحدی کشیدگی کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ دونوں جانب سے فوجیوں کو فوری طور پر سرحد سے ہٹایا جائے اور تناؤ میں کمی لائی جائے۔
دونوں ملکوں کے اعلی سفارتی عہدے داروں کے درمیان یہ ملاقات ماسکو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقع پر الگ سے ہوئی جس میں سرحدی کشیدگی کے خاتمے پر اتفاق کیا گیا۔
چین اور بھارت کے درمیان یہ پیش رفت ایک ایسے موقع پر ہوئی ہے جب رواں ہفتے لداخ میں متنازع سرحد پر فائرنگ کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے پر فائرنگ میں پہل کرنے کے الزامات لگائے تھے۔
SEE ALSO: لداخ میں فائرنگ کا تبادلہ، چین اور بھارت کے ایک دوسرے پر الزاماتچین کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جمعے کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وانگ ژی نے اجلاس کے دوران بھارتی وزیرِ خارجہ سے کہا کہ سرحدی مداخلت اور فائرنگ جیسی اشتعال انگیزی کو فوری روکنے کی ضرورت ہے جس سے دونوں ملکوں کے درمیان معاہدوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔
بیان کے مطابق وانگ ژی نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے کہا کہ کشیدگی کے دوران سرحد پر لائے جانے والے تمام عسکری ساز و سامان اور سرحدی فورسز کو وہاں سے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
نئی دہلی سے ہمارے نامہ نگار سہیل انجم سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفارت کار اور سینئر تجزیہ کار اشوک سجن ہار نے کہا ہے دونوں ملکوں کے درمیان اب تک ہونے والی بات چیت بے نتیجہ رہی ہے۔ مگر اب وزرائے خارجہ کی ملاقات کے بعد کشیدگی کے خاتمے کی معمولی سی امید پیدا ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ جن باتوں پر اتفاق رائے ہوا ہے وہ عملی صورت اختیار کرتی ہیں یا نہیں۔
اشوک سجن کے بقول بھارت اور چین کے درمیان پہلے بھی کشیدگی کے خاتمے کی باتیں ہوتی رہی ہیں لیکن زمینی حقائق کچھ اور بیان کرتے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار اور ایک آن لائن میڈیا پلیٹ فارم 'میڈیا اسٹار ورلڈ' کے ایڈیٹر محمد احمد کاظمی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ روس اور ایران موجودہ حالات میں بھارت اور چین کے درمیان مصالحت کرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بقول روس اس سلسلے میں کافی دلچسپی لے رہا ہے۔
Your browser doesn’t support HTML5
احمد کاظمی کہتے ہیں کہ گزشتہ دنوں بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ اور اس کے بعد وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے تہران کا جو دورہ کیا ہے وہ بلا وجہ نہیں ہے۔ اسی اثنا میں ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے ایک ٹوئٹ میں کہا تھا کہ علاقائی واقعات میں شمولیت ایران کی ترجیح ہے۔
اُن کے بقول جواد ظریف کے ٹوئٹ سے بھی اس جانب اشارہ ملتا ہے کہ بھارت اور چین کے تنازع میں ایران مصالحتی کردار ادا کرنے کا خواہش مند ہے۔
دریں اثنا وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کی صورتِ حال پر تبادلۂ خیال کے لیے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول اور تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ جمعے کو ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس میں شرکت کی۔
اس اجلاس کے دوران چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد کی صورتِ حال کا جائزہ لیا گیا۔
یاد رہے کہ بھارت اور چین کے درمیان مئی سے ہی سرحدی کشیدگی جاری ہے جس میں 15 جون کو اس وقت شدت آ گئی تھی جب گلوان وادی میں دونوں ملکوں کے فوجیوں کی جھڑپ کے دوران بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔
ہمالیہ کے اس بلند و بالا علاقے میں دونوں ملکوں کے درمیان باضابطہ سرحد بندی نہیں ہے اور اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول کہا جاتا ہے۔
چند روز قبل بھی ایک بار پھر دونوں ملکوں کی فوج میں فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے بعد دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کو فائرنگ میں پہل کرنے کا ذمہ دار قرار دیا۔
سن 1975 کے بعد پہلی بار بھارت چین سرحد پر فائرنگ کا یہ واقعہ پیش آیا تھا۔ دونوں ملکوں میں 1996 میں ایک معاہدہ ہوا تھا جس میں طے پایا تھا کہ سرحد پر گشت کے دوران آتشیں اسلحے کا استعمال نہیں کیا جائے گا۔