چین اور روس کی مشترکہ بحری مشقیں پیر سے شمالی کوریا کے نزدیک کھلے سمندر میں شروع ہوگئی ہیں جن پر پیانگ یانگ نے تاحال کوئی ردِ عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'شنہوا' کے مطابق دونوں ملکوں کی مشترکہ بحری مشقیں روس کی انتہائی مشرقی بندرگاہ ولادی وستوک کے نزدیک ہورہی ہیں جو شمالی کوریا اور روس کی سرحد کے نزدیک واقع ہے۔
'شنہوا' کے مطابق حالیہ مشقیں چین اور روس کے درمیان رواں سال ہونے والی بحری مشقوں کا تسلسل ہیں جن کا پہلا مرحلہ جولائی میں بحیرہ بالٹک میں ہوا تھا۔
یہ مشقیں ایسے وقت ہورہی ہیں جب تین ستمبر کو کیے جانے والے شمالی کوریا کے جوہری تجربے اور اس کے جواب میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے پیانگ یانگ پر نئی اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے بعد خطے میں کشیدگی عروج پر ہے۔
تاہم 'شنہوا' نے اپنی رپورٹ میں خطے میں جاری حالیہ کشیدگی اور شمالی کوریا کے ساتھ عالمی برادری کے بڑھتےہوئےتنازع کی جانب کوئی اشارہ نہیں کیا۔
چین اور روس دونوں کا موقف رہا ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو شمالی کوریا کے ساتھ اپنا تنازع بات چیت کے ذریعے پرامن طریقے سے حل کرنا چاہیے۔
لیکن دونوں عالمی طاقتوں نے گزشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی اس قرارداد کی حمایت کی تھی جس کے ذریعے شمالی کوریا پر عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کردی گئی ہیں۔
نئی پابندیاں عائد کیے جانے کے ردِ عمل میں شمالی کوریا نے جمعے کو ایک بار پھر میزائل تجربہ کیا تھا جس کے دوران اس کا بیلسٹک میزائل جاپان کی فضائی حدود سے گزرا تھا۔
شمالی کوریا کی جانب سے فائر کیے جانے والے بیلسٹک میزائل کا جاپان کی حدود سے گزرنے کا تین ہفتوں کے دوران یہ دوسرا واقعہ تھا جس پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے شدید برہمی ظاہر کی تھی۔
میزائل تجربے کے بعد جاپان کے وزیرِ اعظم شنزو ایبے نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے ساتھ سفارت کاری اور مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں اور اس کی دھمکیوں کے مقابلے پر عالمی برادری کو متحد ہو کر پیانگ یانگ پر دباؤ بڑھانا چاہیے۔
اتوار کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں چھپنے والے ایک مضمون میں جاپانی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ شمالی کوریا کے مسلسل میزائل تجربات کے جواب میں اس پر عائد پابندیاں مزید سخت کی جانی چاہئیں۔
اقوامِ متحدہ میں امریکہ کی سفیر نکی ہیلی نے بھی خبردار کیا ہے کہ شمالی کوریا کے جوہری اور میزائل پروگرام کو روکنے کے لیے سلامتی کونسل کو دستیاب آپشن ختم ہوتے جارہے ہیں اور امریکہ یہ معاملہ 'پینٹاگون' کو سونپ سکتا ہے۔
شمالی کوریا نے کہا ہے کہ وہ اپنی سلامتی اور خود مختاری کے تحفظ کے لیے امریکہ کے ساتھ دفاعی توازن قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے میزائل اور جوہری تجربات اسی مقصد کے حصول کے لیے کیے جارہے ہیں۔