چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے کہاہے کہ چین کے نگران بحری جہاز، ملک کی علاقائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے منگل کو جزائر کے قریبی پانیوں میں پہنچ گئے ہیں
چین نے ان جزائر کی جانب، جن کی ملکیت پر اس کا جاپان سے تنازع چل رہاہے، نگرانی کرنے والے اپنے دو بحری جہاز بھیج دیے ہیں۔اگرچہ حال ہی میں ٹوکیومذکورہ جزائر کے پرائیویٹ مالکان سے ان کی خرید کے معاہدے کو حتمی شکل دے چکاہے۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے کہاہے کہ چین کے نگران بحری جہاز ، ملک کی علاقائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے منگل کو جزائر کے قریبی پانیوں میں پہنچ گئے۔
ایک اور خبرکے مطابق جاپان کے میڈیا نے منگل کے روز کہا کہ ٹوکیونے جزائر کے پرائیویٹ جاپانی مالکان سے دوکروڑ 60 لاکھ ڈالر میں تین جزیروں کی خرید کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔
چھوٹے سائز کے یہ جزائر زیادہ تر غیر آباد ہیں ، انہیں چین میں ڈیاؤیو اور جاپان میں سین کاکو کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
جزائر کا محل وقوع بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جب کہ قریبی سمندری علاقے میں مچھلیوں کی بہتات ہے۔
جاپان نے تین متنازع جزائر کی خرید کا اعلان پیر کو کیا تھا ، جس کے فوری ردعمل میں بیجنگ کی وزارت خارجہ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف وزری پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا۔
چین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جاپان کے سفیر کو بھی طلب کیا تھا۔
چین کے سرکاری خبررساں ادارے سنہوا نے کہاہے کہ چین کے نگران بحری جہاز ، ملک کی علاقائی خود مختاری کو یقینی بنانے کے لیے منگل کو جزائر کے قریبی پانیوں میں پہنچ گئے۔
ایک اور خبرکے مطابق جاپان کے میڈیا نے منگل کے روز کہا کہ ٹوکیونے جزائر کے پرائیویٹ جاپانی مالکان سے دوکروڑ 60 لاکھ ڈالر میں تین جزیروں کی خرید کے معاہدے پر دستخط کردیے ہیں۔
چھوٹے سائز کے یہ جزائر زیادہ تر غیر آباد ہیں ، انہیں چین میں ڈیاؤیو اور جاپان میں سین کاکو کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
جزائر کا محل وقوع بڑی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہیں جب کہ قریبی سمندری علاقے میں مچھلیوں کی بہتات ہے۔
جاپان نے تین متنازع جزائر کی خرید کا اعلان پیر کو کیا تھا ، جس کے فوری ردعمل میں بیجنگ کی وزارت خارجہ نے اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی علاقائی خودمختاری کی خلاف وزری پر خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھے گا۔
چین نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے جاپان کے سفیر کو بھی طلب کیا تھا۔