چین ان دنوں بجلی کے شدید بحران میں گھرا ہوا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ملک کے دو تہائی صوبوں میں بجلی کی فراہمی بری طرح متاثر ہوئٰی ہے جس سے وہاں کارخانوں کا پہیہ رک سا گیا ہے اور پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس صورت حال پر جلد قابو نہ پایا گیا تو اس کے معاشی اثرات پوری دنیا پر ظاہر ہو سکتے ہیں، کیونکہ چین عالمی منڈی میں مصنوعات برآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔
بجلی کی قلت کی وجہ سے کاروباری اداروں اور دفاتر میں روزمرہ کا کام کاج متاثر ہو رہا ہے۔ لوگ موم بتیوں اور دیگر ذرائع سے روشنی پیدا کر کے کام چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سڑکوں پر ٹریفک کے اژدھام دیکھنے میں آ رہے ہیں، کیونکہ ٹریفک سگنلز کام نہیں کر رہے۔ جن گھروں کا کچن بجلی پر چلتا تھا وہاں چولہے بجھ گئے ہیں۔ بجلی کی شدید کمی نے گویا پورا نظام مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔ حکومت اس صورت حال پر قابو پانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے جس میں بجلی کی راشن بندی بھی شامل ہے۔
بجلی کی بحران کی زیادہ تر وجہ کوئلے کی فراہمی میں کمی بتائی جا رہی ہے۔ چین میں بجلی پیدا کرنے کے زیادہ تر پلانٹ معدنی کوئلے سے چلتے ہیں۔ پاور پلانٹس کے علاوہ بھی چین بھر میں زیادہ تر معدنی کوئلے کو ایندھن اور توانائی کی فراہمی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اور اسی وجہ سے چین کا شمار گرین ہاؤس گیسز اور آلودگی پیدا کرنے والے بڑے ممالک میں کیا جاتا ہے۔
چین پر ماحول دوست اور قابل تجدید توانائی کی جانب منتقل ہونے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔ چین کی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس جانب اقدامات کر رہی ہے اور گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گیسوں کے اخراج پر کنٹرول کے لیے اپنے جانچ پڑتال کے نظاموں کو سخت تر بنارہی ہے۔
چین میں معدنی کوئلے کی پیداوار میں گزشتہ سال کے مقابلے میں نمایاں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے باعث کانوں میں کام کی بندشن یا سست رفتاری ہے۔ کرونا وائرس پر بہتر کنڑول کے بعد اب رفتہ رفتہ کارخانوں میں توانائی کی مانگ میں اضافہ ہوا ہے، مگر پاور پلانٹس اس بڑھتی ہوئی طلب کو پورا نہیں کر پا رہے، کیونکہ انہیں اپنی پوری استطاعت پر جنریٹرز چلانے کے لیے کوئلہ دستیاب نہیں ہے۔
کوئلے کی قلت سے اس کی قیمت میں اضافہ ہوا ہے۔ چین کے ایک مالیاتی جریدے 'سیاجنگ' مطابق، کوئلہ پیدا کرنے والے صوبوں میں اس کی پیداوار میں تقریباً 18 فی صد کمی ہوئی ہے جس سے اس کی قیمت گزشتہ سال کے مقابلے میں تین گنا تک بڑھ گئی ہے۔ جس کا اثر بجلی کی قیمتوں پر بھی پڑا ہے اور پچھلے سال کے اسی عرصے کے دوران کے تناسب سے یہ قیمت 80 فی صد زیادہ ہے۔ لیکن، اس قیمت پر بھی بجلی گھر نقصان میں جا رہے ہیں، کیونکہ اس ایک خاص حد سے زیادہ بجلی کی فی یونٹ قیمت بڑھانے پر پابندی ہے۔ اس نقصان سے بچنے کے لیے پرائیوٹ کمپنیاں اپنے پاور پلانٹ بند کر رہی ہیں جس سے بجلی کی کمی مزید بڑھ رہی ہے۔
عالمی معیشت کی صورت حال پر نظر رکھنے والے نیویارک میں قائم ادارے 'گولڈمین سیکس' نے کہا ہے کہ توانائی کی کمی سے چین کے 44 فی صد تک صنعتی سرگرمیاں متاثر ہو چکی ہیں۔
جریدے 'ٹائمز' کے مطابق چند روز قبل شروع ہونے والے بجلی کے بحران کا دائرہ اب ملک بھر میں پھیل چکا ہے اور یہ کئی عشروں میں چین کا توانائی کا بدترین بحران ہے، جس سے انٹرنیٹ تک متاثر ہوا ہے اور لوگ اور دکاندار موم بتیاں جلا کر کام کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
جریدے کے مطابق چین کے مرکزی علاقے کے 31 صوبوں میں سے 20 صوبے اس بحران کی لپیٹ میں ہیں۔
اقتصادی صورت حال پر نظر رکھنے والے ادارے 'مارگن سٹینلے' نے پیر کی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ توانائی کے بحران نے چین میں سٹیل، المونیم اور سیمنٹ کی پیداوار کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ سیمنٹ کی پیداوار 29 فی صد تک گر چکی ہے جب کہ المونیم کی پیداوار میں اب تک 7 فی صد کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اسی طرح کیمیکلز، رنگ سازی، فرنیچر اور کھانے پینے کی مصنوعات تیار کرنے والی انڈسٹری کو بھی دھچکا لگا ہے۔
چین دنیا میں سب سے زیادہ توانائی اور گلوبل وارمنگ کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسیں پیدا کرنے والا ملک ہے۔ اس کا کہنا ہے وہ 2060 تک اپنے ملک سے کاربن گیسوں کے اخراج کو صفر پر لانے کے لیے کام کر رہا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہےکہ توانائی کے موجودہ بحران میں مزید اضافے کا سبب چین کی کمیونسٹ حکومت کے گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج پر کنٹرول سے متعلق وہ وعدے ہیں جو اس نے عالمی برادری سے کیے ہیں۔
گلوبل وارمنگ سے متعلق بیجنگ کو 2030 تک اپنے ملک سے کاربن گیسوں کے اخراج میں 65 فی صد تک کمی کا ہدف دیا گیا ہے۔ چین کی حکومت نے علاقائی کمیونسٹ پارٹی کے عہدے داروں انتباہ کیا ہے کہ اگر کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کے اہداف حاصل نہ کیے جا سکے تو انہیں اس کا ذمہ دار ٹہرایا جائے گا، جس کی وجہ سے وہ پوری سرگرمی سے معدنی کوئلے کا استعمال گھٹانے کے منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔
چین کی حکومت توانائی کے بحران میں لوگوں کو درپیش مشکلات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ 'بلوم برگ' نے گزشتہ ہفتے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ گزشتہ ہفتے چین کے نائب وزیر اعظم ہین چنگ نے، جو چین کی توانائی کے شعبے کے نگران بھی ہیں، گیس اور کوئلہ پیدا کرنے کی سرکاری کمپنیوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سرکاری بجلی گھروں کے لیے گیس اور کوئلے کی فراہمی کو محفوظ بنائیں۔ سرکاری شعبہ ملک کی 50 فی صد بجلی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق، اس حکم کا مقصد زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے بجلی کی فراہمی برقرار رکھنا ہے۔
کوئلہ پیدا کرنے کا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہونے کے باوجود چین کے پاس پیر کے روز صرف 14 دن کی اپنی ضروریات کا کوئلہ موجود تھا۔
چین میں توانائی کے بحران کی موجودہ صورت حال پر لندن میں قائم ایک ادارے 'کیپیٹل اکنامکس' نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ "چین میں توانائی کا بحران جلد ختم ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔'
ادارے میں چین کے معاشی امور کے ایک ماہر جیولین ایوانز پرٹکارڈ کا کہنا ہے کہ چین کا توانائی کا بحران اصل میں توانائی کی منڈیوں میں عالمی دباؤ کا عکس ہے اور یہ صورت حال جلد تبدیل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اور بجلی کی راشن بندی اس وقت تک جاری رہ سکتی ہے جب تک بجلی کی طلب اور رسد میں توازن قائم نہیں ہو جاتا۔