متنازع جزائر پر چین کی فوجی تنصیبات میں اضافہ

فائل

جزائر کی تازہ ترین سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہورہا ہے کہ چین نے ایک جزیرے پر رن وے بھی تعمیر کرلیا ہے۔

ایک بین الاقوامی ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ چین نے بحیرہ جنوبی چین میں تعمیر کیے جانے والے مصنوعی جزائر پر فوجی تنصیبات کی تعمیر تیز کردی ہے۔

'ایشیا میری ٹائم ٹرانسپیرنسی انیشی ایٹو' نامی تنظیم نے کہا ہے کہ جزائر کی تازہ ترین سیٹلائٹ تصاویر سے ظاہر ہورہا ہے کہ چین نے ایک جزیرے پر رن وے بھی تعمیر کرلیا ہے۔

تنظیم کے مطابق مذکورہ رن وے تین ہزار میٹر طویل ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ رن وے کی طوالت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسے چین کی فضائی فوج کے زیرِ استعمال تمام طیارے بآسانی استعمال کرسکتے ہیں۔

تنظیم نے انٹرنیٹ پر جاری کی جانے والی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ چینی فوج نے اسی جزیرے پر دو ہیلی پیڈ تعمیر کرنے کے علاوہ 10 کے قریب سیٹلائٹ اینٹینا اور ایک راڈار ٹاور بھی نصب کردیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق چین نے یہ تمام فوجی تنصیبات جس جزیرے پر تعمیر کی ہیں وہ لگ بھگ 5ء2 اسکوائر کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ہے جس پر ایک بندرگاہ بھی تعمیر کی جارہی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زیرِ تعمیر بندرگاہ پر عارضی طور پر نو برتھیں بنائی گئی ہیں جہاں ممکنہ طور پر چینی بحریہ کے جہاز لنگر انداز ہوسکیں گے۔

'فیری کراس ریف' نامی یہ جزیرہ ان سات اسپریٹلے جزائر میں شامل ہے جنہیں چین اپنی ملکیت گردانتا ہے اور ان میں سے بعض پر اپنی فوجی تنصیبات تعمیر کر رہا ہے۔ چینی فوج ان جزائر کی حدود میں اضافے کے لیے ان سے متصل سمندر میں بھی تعمیرات کر رہی ہے۔

خطے کے دیگر ممالک – فلپائن، ویتنام، ملائشیا، برونائی اور تائیوان بھی بحیرۂ جنوبی چین کے بعض حصوں کی ملکیت کے دعویدار ہیں لیکن چین ساڑھے تین ملین اسکوائر کلومیٹر پر پھیلے بحیرہ کا تقریباً بلا شرکتِ غیرے ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔

ان ملکوں کی حکومتوں کا موقف ہے کہ متنازع علاقے میں چین کی جانب سے اپنی فوجی تنصیبات کی تعمیر کا مقصد علاقے کی ملکیت پر اپنے دعوے کو فوجی موجودگی اور زور زبردستی سے منوانا ہے۔

بحیرہ جنوبی چین قدرتی وسائل اور زیرِ آب تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے اور ایک اہم تجارتی راہ گزر ہے۔

حال ہی میں چین نے اعلان کیا تھا کہ اس نے بحیرہ جنوبی چین میں اسپریٹلے کے جزائر کی تعمیر کا کام مکمل کرلیا ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ چین کا اشارہ کن تعمیرات کی جانب تھا۔

رواں ہفتے چین کی وزارتِ خارجہ کے ایک ترجمان نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ ان جزائر پر تعمیرات کا کام مستقبل میں بھی جاری رہے گا اور یہ تعمیرات فوجی اور سول دونوں مقاصد کے لیے استعمال کی جاسکیں گی۔