بھارت اور چین کے درمیان گزشتہ ماہ لداخ کی وادیِ گلوان میں ہونے والی جھڑپوں نے جہاں دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ میں اضافہ کیا ہے، وہاں واشنگٹن میں ماہرین اس چپقلش کو دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی مسابقت کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
واشنگٹن ڈی سی میں کام کرنے والے تھنک ٹینک 'سٹمسن سینٹر' کے تحت ہونے والے ایک آن لائن مباحثے میں شریک ماہرین کا کہنا تھا کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دو سب سے بڑے ملکوں میں بڑھتے ہوئے تناؤ کا تعلق ان کے اپنے اپنے قومی مفاد سے جڑے بیانیوں سے بھی ہے۔
گفتگو میں شامل علاقائی امور کے ماہرین نے چین اور بھارت کے تعلقات کے اس تناظر میں پاکستان کے کردار کو بھی اہم قرار دیا۔
یاد رہے کہ وادیِ گلوان کشمیر کے لداخ حصے میں واقع ہے۔ چین اور بھارت کے زیر کنٹرول علاقوں کے درمیان لائن آف ایکچوال کنٹرول پر عسکری کشیدگی ہے اور جون کے وسط میں وہاں ایک شدید جھڑپ میں دونوں طرف سے کئی فوجیوں کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا تھا۔
آن لائن مباحثے میں شرکت کرنے والے بھارتی ماہر پُشن داس نے کہا کہ چین کی طرف سے طاقت کے استعمال کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ چین کے موجودہ صدر شی جن پنگ کے دور کی اس پالیسی کو ظاہر کرتا ہے، جس کے تحت وہ چین کے مفادات کی خاطر جہاں سمجھتے ہیں، طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔
پُشن داس، جو دلی میں قائم اوبزرور ریسرچ فاونڈیشن فورمز کے سربراہ ہیں، نے کہا کہ چین نے گزشتہ ایک دہائی میں اپنی عسکری طاقت کو مضبوط بنایا ہے۔ ان کے بقول، چین بھارت کے لیے، پاکستان کے مقابلے میں، ایک بڑا عسکری خطرہ ہے۔ لیکن، نئی دلی نے ماضی میں اپنے دفاع پر کوئی زیادہ بڑی رقوم خرچ نہیں کیں۔
اسٹمسن سینٹر کی جنوبی ایشیائی امور کی ماہر زو جارڈن نے کہا کہ صدر شی جن پنگ کے دور میں چین نے خطے میں اپنی اجارہ داری کی حیثیت پر زور دیا ہے۔ ان کے مطابق، بیجنگ بھارت کو دوسرے درجے کا خطرہ اور امریکی پالیسی کے مطابق چین کے اثرورسوخ کو محدود کرنے کی ایک کڑی سمجھتا ہے۔ دوسری جانب، ان کے بقول، بھارت چین کو اپنے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔
زو جارڈن کا کہنا تھا کہ چین ایک آزاد ورلڈ آرڈر کا غیر آزاد رہنما بننا چاہتا ہے، اور اپنی برتری برقرار رکھنے کے لئے بھارت کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں ہوگا۔
پاکستان کے سینٹر فار انٹرنیشنل اسٹریٹیجک اسٹڈیز سے وابستہ ماہر ریاض کھوکھر نے کہا کہ پاکستان یہ خطرہ محسوس کرتا ہے کہ چین سے مقابلے کے لیے بھارت جو جدید عسکری ساز و سامان حاصل کرے گا، اسے پاکستان کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں پاکستان کے خلاف ایک ایسا ماحول بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے اندرونی طور پر بھارت میں پاکستان کے خلاف ایک جارحانہ پالیسی بر قرار رکھنے پر اتفاق نظر آتا ہے۔
ریاض کھوکھر کے بقول، اسلام آباد سمجھتا ہے کہ بھارت کے پاکستان کے خلاف جارحانہ رویے کے مقابلے میں چین عالمی سطح پر اس کا اثر زائل کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت چین سے جنگ کے مقابلے میں تنازعات سے کسی منظم انداز سے نمٹے گا اور دونوں ملک حالات کو زیادہ بگڑنے نہیں دیں گے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ بھارت پاکستان کی سر زمین پر کوئی آپریشن کر سکتا ہے۔ اس صورت میں پاکستان کی طرف سے رد عمل ظاہر کرنے پر حالات بگڑ سکتے ہیں۔
پاکستان کی ترجیحات کا ذکر کرتے ہوئے ریاض کھوکھر نے کہا کہ پاکستان یہ چاہتا ہے کہ کشمیریوں کو ان کا حقِ خود ارادیت دیا جائے اور بھارت میں مسلمانوں کے حقوق کا خیال کیا جائے۔
اس کے جواب میں بھارتی ماہر بشن داس نے کہا کہ نئی دلی کو چین پاکستان اقتصادی راہداری پر اعتراض ہے، کیونکہ، ان کے بقول، یہ راہداری بھارت کے علاقے سے گزرتی ہے۔ انہوں نے کہا بھارت کو بھی پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خدشات ہیں۔
بھارت ہی سے گفتگو میں حصہ لینے والے ایک اور ماہر انترا گھوشال سنگھ، جو دہلی پالیسی گروپ سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ چین کے گلوان وادی میں جارحانہ اقدامات سے جموں اور کشمیر میں بھارت کے ترقیاتی کاموں پر منفی اثر پڑ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین سمجھتا ہے کہ اس کے عسکری اقدامات سے بھارت کے حوصلے پست ہوںگے۔
براعظم ایشیا کی سلامتی کے بھارتی ماہر تنیر مکھرجی نے کہا کہ بھارت چین سے بحری صلاحیتوں میں بہت پیچھے ہے اور تنہا اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لیے اسے امریکہ اور ایشیا کے بڑے ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا ہوگا۔