بھارت کے ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق فنڈز کی فراہمی میں تاخیر پر ایران نے بھارت کو چاہ بہار ریلوے منصوبے سے الگ کر دیا ہے۔
بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے اسے بھارت کی بڑی ناکامی قرار دیتے ہوئے وزیرِ اعظم نریندر مودی کی سفارتی شکست قرار دیا ہے۔
ایران کی بندرگاہ چاہ بہار سے زاہدان اور افغانستان کی سرحد تک اس ریلوے منصوبے پر 2016 میں بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی، ایران کے صدر حسن روحانی اور افغانستان کے صدر اشرف غنی نے دستخط کیے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے کے ذریعے بھارت افغانستان اور وسطی ایشیائی ملکوں تک رسائی کے لیے متبادل روٹ کا خواہاں تھا۔
لیکن بھارتی ذرائع ابلاغ نے ایران کے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ بھارت کی جانب سے منصوبے میں تاخیر کے باعث ایران نے اپنے طور پر یہ منصوبہ مکمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
گزشتہ ہفتے ایران کے وزیر ٹرانسپورٹ محمد اسلامی نے 628 کلومیٹر طویل ریلوے ٹریک بچھانے کا افتتاح کیا تھا۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ منصوبہ مارچ 2022 میں مکمل کر لیا جائے گا۔
انڈین ریلوے کنسٹرکشن (ارکون) نے اس منصوبے میں تیکنیکی معاونت، سول ورک اور ٹریک بچھانے کی مد میں لگ بھگ 1.6 ارب ڈالر خرچ کرنا تھے۔ لیکن اب ایرانی حکام کے مطابق ایران کے قومی ترقیاتی فنڈ سے منصوبے کے لیے ابتداً 400 ملین ڈالر کی رقم مختص کر دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ایران نے حال ہی میں چین کے ساتھ 25 سال کے لیے معاشی اور سیکیورٹی شراکت داری کے منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔
البتہ بھارتی حکومت کی جانب سے تاحال اس پیش رفت پر کوئی سرکاری ردعمل سامنے نہیں آیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس منصوبے میں چین، ایران میں مواصلات، بینکنگ، صنعت، ریلوے لائنز اور بندرگاہوں کی تعمیر کے سلسلے میں ایرانی حکومت کی معاونت کرے گا۔ اس کے بدلے ایران چین کو 25 سال تک سستا تیل فراہم کرے گا۔
اٹھارہ صفحات پر مشتمل اس معاہدے میں چین ایران کے ساتھ فوجی تعاون کے منصوبوں پر بھی کام کرے گا۔ اس منصوبے کو چین کے خطے میں برھتے ہوئے اثر و رسوخ کی ایک اور کڑی قرار دیا جا رہا ہے۔
اُدھر بھارت میں حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس کے رہنما نے اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ یہ بھارت کی بڑی ناکامی ہے۔ چین نے خاموشی کے ساتھ ایران کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ انڈیا کی بڑی شکست لیکن آپ سوال نہیں کر سکتے۔
پاکستان کے سینیٹ کی خارجہ اُمور کمیٹی کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت نے امریکی دباؤ کے تحت یوٹرن لیا ہے اور ایران کے ساتھ دستخط شدہ معاہدے سے پیچھے ہٹ گیا ہے جس کے بعد ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ خود سے اس منصوبے کو مکمل کرے گا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین بھارت کشیدگی کے دور میں ایران کا چین کے ساتھ 25 سالہ شراکت داری کا منصوبہ اور بھارت کو چاہ بہار منصوبے سے علیحدہ کیا جانا خاصی اہمیت کا حامل ہے۔
ایران میں پاکستان کے سفیر کے طور پر خدمات انجام دینے والے آصف درانی کہتے ہیں کہ تہران کافی عرصے سے کہہ رہا تھا کہ بھارت چاہ بہار اور اس سے منسلک منصوبوں پر سست روی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ بھارت چاہ بہار سے زاہدان ریلوے ٹریک میں زیادہ سنجیدہ نہیں تھا کیوں کہ اسے کابل سے تجارت بڑھانے میں خاص دلچسپی نہیں جب کہ ایرانی بندرگاہ بندر عباس کے ذریعے روس سے اس کی تجارت پہلے سے جاری ہے۔
'خطے میں تیزی سے نئی صف بندی ہو رہی ہے'
چین اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے نتیجے میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ خطے میں نئی صف بندی ہو رہی ہے۔
گزشتہ ماہ بھارت اور چین کے فوجیوں کے درمیان لداخ کی گلوان وادی میں ہونے والی دست بدست لڑائی میں بھارت کی فوج کے ایک کرنل سمیت 20 فوجی ہلاک ہونے کے بعد سے خطے کی صورتِ حال تیزی سے تبدیل ہورہی ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ خطے میں حالیہ رونما ہونے والے واقعات و حالات کے نتیجے میں یہ بات مزید واضح ہورہی ہے کہ علاقائی طاقت کا توازن بھارت کے خلاف اور پاکستان اور چین کے حق میں جا رہا ہے۔
ان کے بقول پاکستان امریکہ اور ہمسائیہ ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے لیے کلیدی کردار ادا کر رہا ہے جس سے اسلام آباد کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت کا جھکاؤ اب امریکہ اور چین مخالف قوتوں کی جانب ہے اور نئی دہلی خود کو بیجنگ کے مدمقابل کھڑا کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
سابق سفارت کار آصف درانی کا بھی ماننا ہے کہ بھارت امریکی حمایت سے چین کے مدمقابل آنے کی کوشش کررہا ہے اور اگر ایسی صورتِ حال برقرار رہی تو خطے کے ممالک میں صف بندی مزید واضح ہوتی جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ چین ایران کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے اور امریکی پابندیوں کے نتیجے میں ایران کو اپنا وزن بھارت سے ہٹا کر چین کی طرف ڈالنا بہتر دکھائی دے رہا ہے۔
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت چین کے ساتھ تناؤ میں اضافہ کر کے علاقائی سطح پر اپنی حمایت کھو رہا ہے جس کی مثال چاہ بہار ریلوے معاہدے سے اس کی علیحدگی ہے۔
مشاہد حسین سمجھتے ہیں کہ لداخ کشیدگی کے بعد بھارت دباؤ کا شکار ہے۔ لہذٰا پاکستان کو موقع ملا ہے کہ وہ تنازع کشمیر اور علاقائی تعاون کے لیے اپنی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھائے۔
کیا گوادر کا چاہ بہار بندرگاہ سے موازنہ درست ہے؟
مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ بھارت کی یہ خواہش رہی ہے کہ وہ چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے گوادر بندرگاہ کی اہمیت کم کرے۔ لیکن اُن کے بقول اس پیش رفت کے بعد بھارت اپنے مقصد میں ناکام ہو گیا ہے کیوں کہ ایران اب اپنا وزن چین کے پلڑے میں ڈال چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کو چاہ بہار پر بھارت کی سرگرمیوں پر تشویش تھی۔ بھارتی جاسوس کلبھوش جادھو بھی چاہ بہار میں بیٹھ کر پاکستان مخالف سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہا تھا۔
آصف درانی کہتے ہیں کہ بھارت گوادر کو تجارت کے بجائے دفاعی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا۔
چاہ بہار بندرگاہ کو بھارت کے افغانستان اور وسط ایشیا میں رسائی کے لیے اہم قرار دیا جاتا ہے یہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ سے محض 90 کلو میٹر کی دوری پر ہے۔