’جارحانہ چینی حربوں‘ پر جاپان کا اظہار تشویش

فائل

جاپان کے ایوان زیریں نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی دفاعی افواج پر عائد پابندیوں کو نرم کیا گیا ہے، جس کے بعد وہ دوست ممالک پر حملے کی صورت میں آگے بڑھ کر اس کے دفاع کے لئے لڑ سکیں گے

جاپان نے مشرقی چینی سمندری حدود میں چین کی بڑھتی ہوئی ’جارحانہ‘ میری ٹائم سرگرمیوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے، جس کی وجہ سے جاپانی وزیر اعطم شیزو ابے ملک کے فوجی کردار میں اضافے کے لئے کئی متنازعہ اقدامات اٹھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔

جاپان کی وزارت دفاع کی سالانہ دفاعی جائزہ رپورٹ میں مشرقی بحیرہ چین میں تیل اور گیس کے ذخائر کی ترقی کے لئے چینی اقدامات اور جاپان کے زیر انتظام جزائر کے اطراف میں اس کی فوجی موجودگی میں مسلسل اضافہ کا سخت نوٹس لیا گیا ہے، جبکہ چین بھی علاقائی سمندری حدود میں جاپانی افواج میں اضافے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔

رپورٹ میں وسائل سے مالامال جنوبی چینی سمندر میں چین کی سرگرمیوں کی سخت مذمت کی گئی ہے، جہاں چین نے کئی مصنوعی جزائر کی تعمیر بھی شروع کر رکھی ہے، جس کی وجہ سے بیجنگ اور اس کے متعدد مشرقی ایشیائی پڑوسیوں کے درمیان تنازعات میں اضافہ ہوا ہے۔

خصوصی طور پر، چین کے میری ٹائم مسئلے پر تنازعہ پیدا ہورہا ہے، جہاں زمینی حقائق کو تبدیل کرنے سمیت وہ کئی اقدامات فخریہ انداز سے کر رہا ہے۔اور یکطرفہ طور پر کسی مصالحت کے بغیر مطالبات کیے جا رہا ہے۔

وزارت دفاع کی اس رپورٹ میں شمالی کوریا کے مزائل پروگرام کو بھی جاپان کی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔

جاپان کے ایوان زیریں نے ایک قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت دوسری جنگ عظیم کے بعد اس کی دفاعی افواج پر عائد پابندیوں کو نرم کیا گیا ہے، جس کے بعد وہ دوست ممالک پر حملے کی صورت میں آگے بڑھ کر اس کے دفاع کے لئے لڑ سکیں گے۔

وزیر اعظم شیزو ابے کا کہنا ہے کہ، ’میں نے بار بار کہا ہے کہ تنازعات کا بین الااقوامی قوانین کے مطابق پرامن حل نکالنا چاہئے، فوج کے استعمال یا دھمکی دے کر نہیں، مضبوط طاقتوں کو کھلے سمندر میں کمزوروں کے ساتھ بدسلوکی نہیں کرنا چاہئے۔‘

یہ بل اب ایوان بالا میں 60 دن کے اندر ووٹنگ کے لیے پیش کردیا گیا ہے۔اگر ایوان بالا اس قانون کو مسترد بھی کردے تو شیزو ابے ایوان زیریں میں اتنی طاقت رکھتے ہیں کہ وہ اس کےفیصلے کو ہی مسترد کردیں۔ حزب مخالف کے اراکین پارلیمنٹ اور عام عوام 70 سال پرانی آئینی پابندی میں نرمی کے لئے قوانین میں اس بنیادی تبدیلی کی مخالفت کررہے ہیں۔

چین کے وزیر خارجہ نے بھی جاپان کی اس قانون سازی کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ کیا ٹوکیو اپنی خصوصی دفاعی پالیسی کو جاری رکھ سکے گا۔