امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے عالمی تنہائی سے نکل سکتا ہے اور اس سلسلے میں چین ایک مثبت و موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔
امریکی وزیر ِ خارجہ جان کیری اس ہفتے کے آخر میں ایشیائی ممالک کا دورہ کریں گے۔ وہ جنوبی کوریا، چین اور جاپان جائیں گے اور ان ممالک کے ساتھ شمالی کوریا کی جانب سے دی گئی دھمکیوں کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
وزیر ِ خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے اب بھی عالمی تنہائی سے نکل سکتا ہے اور اس سلسلے میں چین ایک مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کے الفاظ، ’’شمالی کوریا دوسرے ممالک اور بالخصوص اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکتا ہے۔ چین اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت چین کے شمالی کوریا سے ہمیشہ اچھے مراسم رہے ہیں۔‘‘
وزیر ِ خارجہ کے چینی ہم منصب بھی اُن کی رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ چینی وزیر ِ خارجہ ہونگ لی کہتے ہیں، ’’ہم تنازعہ نہیں بلکہ مفاہمت چاہتے ہیں۔ ہم مکالمہ چاہتے ہیں نہ کہ الزام تراشی۔ جزیرہ نما کوریا پر تنازعہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ چین بھی جزیرہ نما کوریا اور شمال مشرقی ایشیاء میں امن اور استحکام چاہتا ہے۔‘‘
واشنگٹن میں جونز ہاپکنز یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر الیگزینڈر منسوروف کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ واشنگٹن بیجنگ سے کیا چاہتا ہے؟ ان کے الفاظ، ’’اگر چین شمالی کوریا کے ساتھ اپنے تجارتی روابط برقرار رکھے گا اور وہاں پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گا تو ہم یہ توقع رکھیں گے کہ چین شمالی کوریا پر بہتر طرز ِ حکومت اور موثر سماجی پالیسیاں بنانے کے لیے بھی زور ڈالے۔‘‘
لیکن واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سے منسلک بروس کلنگر کہتے ہیں کہ انہیں موجودہ حالات میں تبدیلی کی زیادہ امید اور توقع نہیں۔ بروس کلنگر کے مطابق، ’’چین کا شمالی کوریا پر اتنا اثرورسوخ نہیں ہے جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور جتنا اثرورسوخ وہ رکھتے ہیں وہ اسے بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ بروس کلنگر کا مزید کہنا تھا کہ، ’’چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ مسئلے کے حل کی بجائے خود مسئلہ کا حصہ بنا ہوا ہے۔‘‘ بروس کلنگر کے نزدیک اس کی وجہ شمالی کوریا میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی چینی سرمایہ کاری ہے۔
اپنے دورہ ِ ایشیاء میں سینیٹر کیری جنوبی کوریا جائیں گے جو شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ وزیر ِ خارجہ کیری جاپان اور چین بھی جائیں گے۔ وزیر ِ خارجہ ان تینوں ممالک سے شمالی کوریا کے بارے میں تفصیلا بات چیت کریں گے۔
وزیر ِ خارجہ جان کیری کا کہنا ہے کہ پیانگ یانگ اپنا جوہری پروگرام ختم کرکے اب بھی عالمی تنہائی سے نکل سکتا ہے اور اس سلسلے میں چین ایک مثبت اور موثر کردار ادا کر سکتا ہے۔ ان کے الفاظ، ’’شمالی کوریا دوسرے ممالک اور بالخصوص اپنے ہمسایہ ملک چین کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھ سکتا ہے۔ چین اس سلسلے میں ایک کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے کیونکہ کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت چین کے شمالی کوریا سے ہمیشہ اچھے مراسم رہے ہیں۔‘‘
وزیر ِ خارجہ کے چینی ہم منصب بھی اُن کی رائے سے متفق دکھائی دیتے ہیں۔ چینی وزیر ِ خارجہ ہونگ لی کہتے ہیں، ’’ہم تنازعہ نہیں بلکہ مفاہمت چاہتے ہیں۔ ہم مکالمہ چاہتے ہیں نہ کہ الزام تراشی۔ جزیرہ نما کوریا پر تنازعہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں۔ چین بھی جزیرہ نما کوریا اور شمال مشرقی ایشیاء میں امن اور استحکام چاہتا ہے۔‘‘
واشنگٹن میں جونز ہاپکنز یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر الیگزینڈر منسوروف کہتے ہیں کہ دیکھنا یہ ہوگا کہ واشنگٹن بیجنگ سے کیا چاہتا ہے؟ ان کے الفاظ، ’’اگر چین شمالی کوریا کے ساتھ اپنے تجارتی روابط برقرار رکھے گا اور وہاں پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرے گا تو ہم یہ توقع رکھیں گے کہ چین شمالی کوریا پر بہتر طرز ِ حکومت اور موثر سماجی پالیسیاں بنانے کے لیے بھی زور ڈالے۔‘‘
لیکن واشنگٹن کے ایک تھنک ٹینک سے منسلک بروس کلنگر کہتے ہیں کہ انہیں موجودہ حالات میں تبدیلی کی زیادہ امید اور توقع نہیں۔ بروس کلنگر کے مطابق، ’’چین کا شمالی کوریا پر اتنا اثرورسوخ نہیں ہے جتنا کہ تصور کیا جاتا ہے۔ اور جتنا اثرورسوخ وہ رکھتے ہیں وہ اسے بھی استعمال نہیں کرنا چاہتے۔‘‘ بروس کلنگر کا مزید کہنا تھا کہ، ’’چین نے ثابت کیا ہے کہ وہ مسئلے کے حل کی بجائے خود مسئلہ کا حصہ بنا ہوا ہے۔‘‘ بروس کلنگر کے نزدیک اس کی وجہ شمالی کوریا میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی چینی سرمایہ کاری ہے۔
اپنے دورہ ِ ایشیاء میں سینیٹر کیری جنوبی کوریا جائیں گے جو شمالی کوریا کے جوہری پروگرام پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ وزیر ِ خارجہ کیری جاپان اور چین بھی جائیں گے۔ وزیر ِ خارجہ ان تینوں ممالک سے شمالی کوریا کے بارے میں تفصیلا بات چیت کریں گے۔