انسانی حقوق کے ریکارڈ پر سوال اٹھانے والے بڑے برانڈز پر چین کی برہمی

China Xinjiang Foreign Brands

چین کے سرکاری ٹیلی وژن نے جمعرات کے روز سویڈن سے تعلق رکھنے والے کپڑوں کے برینڈ 'ایچ اینڈ ایم' کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب بیجنگ کو مغربی ملکوں کی جانب سے اپنے علاقے سنکیانگ میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پابندیوں کا سامنا ہے۔

چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے ایچ اینڈ ایم کو اس کے مارچ 2020 کے بیان پر تنقید کا سامنا ہے جس میں سویڈش برینڈ نے کہا تھا کہ وہ چین کے شمال مغربی علاقے سے کپاس کی خرید بند کر دے گا۔ کمپنی نے دوسرے برینڈز کے ساتھ مل کر اس علاقے میں جبری مزدوری کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار کیا تھا۔

کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے ایچ اینڈ ایم کے علاوہ 'بربری'، 'ایڈیڈاس'، 'نائیکی'، 'نیو بیلنس' اور 'زارا' جیسے بڑے برانڈز پر بھی ان کے سنکیانگ کے بارے میں دو برس پرانے بیانات پر تنقید کی ہے۔

چین کے سینٹرل ٹیلی وژن نے اپنے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ایسے کاروبار جو ان کے ملک کے خلاف بیانات دیتے ہیں، انہیں خریدنا بند کر دینا چاہئے۔ ٹیلی وژن نے مزید لکھا کہ ان کے لیے 'ایچ اینڈ ایم' کا مطلب جھوٹ اور من گھڑت ہے۔

چینی میڈیا کی جانب سے مغربی برینڈز پر یہ حملے ایسے موقع پر کئے جا رہے ہیں جب پیر کے روز 27 ملکی یورپی یونین کے اتحاد نے برطانیہ، کینیڈا اور امریکہ کے ساتھ مل کر، سنکیانگ میں چینی مظالم کو بنیاد بنا کر چینی حکام پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

غیر ملکی محققین اور حکومتوں کے مطابق، چین کے صوبے سنکیانگ میں دس لاکھ سے زائد افراد کو جبری طور پر 'اصلاحی مراکز' میں رکھا گیا ہے۔ ان میں زیادہ تعداد ایسی قومیتوں سے ہیں، جو مسلمان ہیں۔ بیجنگ کا کہنا ہے کہ انہیں ان کیمپوں میں مقامی سطح پر معاشی ترقی کو فروغ دینے اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لیے رکھا گیا ہے۔ چین ان افراد کے ساتھ کسی قسم کے ظلم کی تردید کرتا ہے۔

دوسری طرف امریکہ کی جانب سے کئی برس سے جاری مہم کے نتیجے میں چینی موبائل کمپنی ہواوے کو مشکلات کا سامنا ہے۔

ایک وقت میں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سمارٹ فون فروخت کرنے والی کمپنی کو چین سے باہر اپنی مارکیٹ بڑھانے میں کئی مشکلات کا سامنا ہے۔

کمپنی کو صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا، جن میں 5G سمارٹ فون بنانے کے لیے کمپنی کو ٹیکنالوجی کی برآمد پر پابندی بھی شامل ہے۔ کمپنی کے موبائل ٹیلی کمیونیکیشن انفراسٹرکچر کی انسٹالیشن کے کاروبار پر بھی پابندیاں ہیں۔

صدر بائیڈن نے اب تک چین کے معاملے پر پابندیاں کم کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے۔ بلکہ انہوں نے چین سے متعلق سخت موقف رکھنے والی خاتون کیتھرین تائی کو امریکہ کی نمائندہ برائے تجارت بنایا ہے۔ لیکن ہواوے اور دیگر چینی کمپنیوں کو امید ہے کہ دونوں ممالک ٹرمپ انتظامیہ دور کی تجارتی جنگ سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔

اس کے برعکس صدر بائیڈن کی جانب سے اس ماہ کے اوائل میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ان کی انتظامیہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے لگائی گئی برآمدی پابندیاں نہ صرف جاری رکھے گی بلکہ ان میں سے کئی کو مزید سخت کرے گی۔