پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ممبران نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کالعدم تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر سے متعلق اقوام متحدہ میں قرار داد کی مخالفت چین نے کیوں کی۔
واضح رہے کہ مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی میں بھارت کی جانب سے جمع کرائی گئی قرار داد پر چین نے اعتراض کیا تھا جس کی وجہ سے اُس قرار داد پر پیش رفت نا ہو سکی۔
پاکستانی سینیٹ کی انسانی حقوق کمیٹی کے پیر کو ہونے والے اجلاس میں اس بارے میں تحفظات کا اظہار کیا۔
کمیٹی کی چیئرپرسن سینیٹر نسرین جلیل نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کے اجلاس میں جیش محمد سے متعلق قرار داد کو ’’چین نے ویٹو کیا۔۔۔ تو کمیٹی میں اس بارے میں بھی بات ہوئی کہ ہم حکومت سے کہیں گے کہ اگر چین کی حکومت پر زور دلوا کر یہ کہلوایا گیا تو (حکومت پاکستان) کو ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ اپنی پالیسی کی سمت کو حکومت درست کرے‘‘۔
چین کی طرف سے اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
پاکستان میں مبصرین کا کہنا ہے کہ جب بھارت کی طرف سے اس معاملے کو عالمی سطح پر اٹھایا گیا تو پاکستان نے چین سے اپنے تعلقات کو استعمال کرتے ہوئے اسے رکوایا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کا موقف ہے کہ نئی دہلی کی طرف سے عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے خلاف اقوام متحدہ میں قرار داد ایک ’سیاسی حربہ‘ ہے۔
بھارت کا الزام ہے کہ اُس کے ہاں ہونے والے بعض حملوں بشمول پٹھان کوٹ فضائی اڈے پر کیے جانے والے حملے میںجیشِ محمد اور مولانا مسعود اظہر ملوث ہیں۔
جیشِ محمد اقوام متحدہ کی اُس فہرست میں شامل ہیں جن پر عالمی تعزیرات عائد ہیں لیکن مسعود اظہر کا نام بلیک لسٹ میں شامل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل بھی اپریل 2016 میں بھارت کی طرف سے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کا نام اقوام متحدہ کی ’بلیک لسٹ‘ میں شامل کیے جانے کی تجویز کی چین کی طرف سے مخالفت کی گئی، جس پر نئی دہلی حکومت نے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔