چین نے جنگ سے تباہ حال اپنے پڑوسی ملک افغانستان کے گہرے ہوتے معاشی اور انسانی بحران سے نمٹنے میں طالبان حکمرانوں کی مدد کے لیے براہِ راست فضائی تجارتی رابطہ دوبارہ فعال کر دیا ہے۔
اتوار کو ایک کارگو طیارہ 45 ٹن چلغوزے لے کر کابل سے چینی منڈیوں کے لیے روانہ ہوا ہے، جو اگست میں طالبان کے افغانستان پر کنٹرول کے بعد تجارت کی بحالی کی علامت ہے۔
طالبان حکومت کے ایک ترجمان بلال کریمی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چلغوزے کی برآمد کابل اور بیجنگ کے درمیان حالیہ وسیع تر 'اچھی بات چیت' کا نتیجہ ہے۔ آنے والے دنوں میں دو طرفہ تجارت کے دیگر شعبوں میں پیش رفت کی توقع ہے۔
ان کے بقول "ہمیں امید ہے کہ تجارتی سرگرمیاں جاری رہیں گی اور چین کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات کو فروغ ملے گا۔"
انہوں نے کہا کہ "چلغوزے کی آج ہونے والی برآمد خاص طور پر دونوں ملکوں کے تعلقات میں ایک نئی اور اچھی شروعات کی نشاندہی کرتی ہے۔
کارگو فلائٹ کی روانگی کے بعد کابل میں چین کے سفیر وانگ یو نے ایک ٹوئٹ میں کہا، "کروڑوں امریکی ڈالر کی اس آمدنی سے بہت سے افغان کسانوں کو فائدہ پہنچے گا۔"
چین کے سفیر نے اپنی ٹوئٹ میں مزید لکھا کہ "یہ چھوٹے چھوٹے چلغوزے افغان عوام کے لیے خوشی اور چینی باشندوں کے لیے اچھا ذائقہ لائیں گے، چلغوزوں کی فضائی تجارت دونوں ممالک کے درمیان دوستی کا اہم رابطہ ہے۔"
یاد رہے کہ چین افغانستان سے چلغوزوں کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور اس نے نومبر 2018 میں فضائی ذریعے سے تجارت کا آغاز کیا تھا۔
اس وقت حکام کا اندازہ تھا کہ یہ تجارتی رابطہ افغان برآمد کنندگان کو سالانہ 23 ہزار ٹن چلغوزے چین بھیجنے کے قابل بنائے گا، جس سے انہیں 80 کروڑ ڈالر تک آمدنی ہو گی۔
اس تجارت سے افغان چلغوزوں کی صنعت کو فروغ ملا کیوں کہ گزشتہ برس چینی درآمد کنندگان نے اگلے پانچ برسوں کے لیے دو ارب ڈالر سے زیادہ چلغوزے خریدنے کے معاہدے کیے۔
بیجنگ طویل عرصے سے دوطرفہ اقتصادی تعاون کو افغانستان کو مستحکم کرنے اور چین مخالف عسکریت پسندوں کو افغان سرزمین کو دہشت گرد حملوں کے لیے ایک ٹھکانے کے طور پر استعمال کرنے سے روکنے کے طور پر دیکھتا رہا ہے، خاص طور پر اپنے مغربی سنکیانگ کے سرحدی علاقے میں۔
تقریباً 20 برس کی جنگ کے بعد اگست میں امریکہ اور نیٹو اتحادیوں کے افغانستان سے انخلا کے بعد سے چین ہمسایہ اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ مل کر طالبان کو ملک میں استحکام لانے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے چینی وزیرِ خارجہ وانگ یو نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے سینئر رہنماؤں سے دو روزہ بات چیت کی تھی۔
ملاقات کے بعد چین کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ سفیر وانگ نے طالبان مذاکرات کاروں کو بتایا کہ بیجنگ کو افغانستان میں انسانی بحران کے 'ممکنہ پھیلاؤ' پر تشویش ہے۔
دوحہ میں اپنی ملاقات کے بعد وانگ نے کہا تھا کہ افغانستان میں سلامتی کی صورتِ حال میں استحکام کے بعد چین افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعمیرِ نو کے شعبے میں تعاون پر بات چیت کرے گا اور خطے کے ساتھ روابط بڑھانے اور آزادانہ ترقی کے لیے اس کی صلاحیت میں اضافہ کرنے کی خاطر اس کی حمایت کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
چین پہلے ہی افغانستان کے لیے تین کروڑ ڈالر سے زیادہ مالیت کی انسانی ہمدردی کی امداد کا اعلان کر چکا ہے۔ وانگ نے گزشتہ ہفتے کی بات چیت کے بعد مزید 60 لاکھ ڈالر کی اضافی نقد رقم اور مادی امداد کا اعلان کیا تھا۔
واشنگٹن اور عالمی برادری نے ابھی تک طالبان انتظامیہ کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔
طالبان کے قبضے کے بعد امریکہ نے تقریباً 10 ارب ڈالر کے افغان اثاثوں تک ان کی رسائی کو روک دیا تھا۔ یہ اثاثے زیادہ تر امریکی فیڈرل ریزرو میں ہیں جب کہ افغانستان کو ایک بڑے انسانی اور اقتصادی بحران کے خطرے کا سامنا ہے۔
طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں ماضی میں طالبان کے دورِ حکومت میں انسانی حقوق کی فراہمی سے انکار اور دہشت گردی سے منسلک واقعات کے دوبارہ ہونے کے خدشات کے باعث لگائی گئی ہیں۔
چین، پاکستان، ترکی، ایران اور روس مغربی ممالک پر زور دے رہے ہیں کہ وہ کابل کے بیرونِ ملک اثاثے واگزار کریں اور افغان عوام کی مدد کے لیے فوری طور پر انسانی ہمدردی کی امداد بھیجیں۔
اگرچہ واشنگٹن اور یورپی ممالک اب تک طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کے مطالبات کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن انہوں نے افغانستان کے لیے فوری انسانی امداد فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اقوامِ متحدہ نے انتباہ کیا ہے کہ اگر افغانستان کو فوری طور پر انسانی ہمدردی کی امداد فراہم نہ کی گئی تو اس موسم سرما میں چار کروڑ نفوس کے اس ملک کی تقریباً نصف آبادی کو بھوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔