ویب ڈیسک۔امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ ہمارے چین کے ساتھ اختلافات ہیں ۔ویدانت پٹیل نے کہا،" صدر بائیڈن سمجھتے ہیں سفارت کاری اور وزیرِ خارجہ بلنکن کا چین کا حالیہ دورہ باہم تناؤ سے نمٹنے اور غلط فہمیاں دور کرنے کا ذمے دارانہ طریقہ ہے اور یہی ہمارے مفاد میں ہے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم اپنے اختلافات کے بارے میں صاف صاف بات نہیں کریں گے۔"
امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے چین کے لیڈر شی جن پنگ کے لئے ’آمر‘ کا لفظ استعمال کرنے پر چین نے ردعمل کا اظہارکیا ہے اور اسے ’ بے معنی اور غیر ذمہ دارانہ‘ قرار دیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ میں معمول کی بریفنگ میں اس بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے نائب ترجمان ویدانت پٹیل نے مزید کہا،"چین کا حالیہ دورہ مکمل کرتے ہوئے بیجنگ میں وزیرِ خارجہ بلنکن نے دورے میں چینی عہدیداروں کے ساتھ بات چیت میں متعدد امور پر پیش رفت کا ذکر کیا۔ چنانچہ ہم منتظر ہیں کہ چین کے ساتھ اپنے پیچیدہ تعلقات میں بہت سے معاملات پر باہم رابطے قائم رکھے جائیں۔"
صدر جو بائیڈن نے مشرقی ریاست کیلی فورنیا میں ایک فنڈ ریزر کے موقع پر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی صدر شی بقول ان کے اس صورتِ حال پر نادم تھے جس کا تعلق امریکہ کی فضا میں بھیجے جانے والے جاسوسی غبارے اور اس کو مار گرانے سے ہے۔ صدر بائیڈن نے کہا کہ ’’ ایسی صورتحال آمروں کے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے جب وہ یہ نہیں جانتے کہ آخر ہوا کیا ہے۔‘‘
چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ ننگ نے روز مرہ بریفنگ میں کہا کہ ’’یہ صریحی سیاسی اشتعال انگیزی ہے ۔ چین اس پر انتہائی بے اطمینانی اور مخالفت کا اظہار کرتا ہے۔امریکی بیان بے معنی اور غیر ذمہ دارانہ ہے۔ ‘‘
تاہم روس کا کہنا ہے کہ صدر بائیڈن کا یہ بیان امریکی خارجہ پالیسی میں تسلسل کے فقدان کا اظہار کرتا ہے اور یہ پالیسی بدلتی رہتی ہے۔امریکی صدر کا بیان اسکے چند گھنٹے بعد ہی آیا جب امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے امریکی چینل اے بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے دونوں ممالک کے صدور کے براہ راست تعلقات کی اہمیت پر زور دیا تھا۔
ان تازہ ترین بیانات سے ایک ہی روز پہلے امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے بیجنگ کا دورہ مکمل کیاتھا جس کا مقصد دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہتری لانا تھا جن میں حالیہ دنوں میں کافی خرابی پیدا ہوئی ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کا دورہ فروری میں ہونا تھا لیکن جاسوس غبارے کے واقعے کےنتیجے میں پیدا ہونے والی بد مزگی کے بعد اسے مؤخر کر دیا گیا۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نے ایک بار پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ اس غبارے کا تعلق موسمیاتی ریسرچ سے تھا اور یہ بھٹک کر امریکی فضا میں آ گیا تھا۔ ماؤ نے کہا کہ ’’ امریکہ کو یہ معاملہ پرسکون اور پیشہ ورانہ انداز میں حل کرنا چاہئے تھا۔
امریکہ نے حالیہ دنوں میں یہ بھی کہا ہے کہ چین کے جنگی اور بحری جہاز اس انداز میں نقل وحرکت کرتے ہیں کہ آبنائے تائیوان اور جنوبی بحیرہ چین میں امریکی حلیفوں کو خطرہ محسوس ہوتا ہے۔
SEE ALSO: امریکہ کے وزیرِ خارجہ کا دورۂ چین: کیا دونوں ممالک کے تعلقات میں بہتری کی امید ہے؟بلنکن کے دورہ چین کے دوران چین نے تائیوان کے لئے امریکی حمایت پر شدید اعتراضات اٹھائے کیونکہ چین تائیوان کو اپنا علاقہ سمجھتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ چین کی کمپیوٹر چپ کی صنعتی ٹیکنالوجی کی رسائی کو روکنے کا خواہاں ہے ۔ اس ٹیکنالوجی کو فوجی مقاصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ بیجنگ کو امریکی املاکِ دانش کی چوری کے لئے بھی مورد الزام ٹھہراتا ہے۔
امریکہ اور چین اس گہری سیاسی تقسیم کے باوجود گہرے اقتصادی اور ثقافتی رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ دو طرفہ تجارت گزشتہ برس 690 بلین ڈالر سے تجاوز کر گئی اور ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ چینی طالب علم امریکہ میں زیر تعلیم ہیں ۔
اس خبر کی کچھ تفصیلات خبر رساں ادارےایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئی ہیں