چین ہانگ کانگ پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنے کے بعد اس نیم خود مختارخطے کے دستور میں تبدیلیاں کرنے پر غور کر رہا ہے۔
یہ بات ہانگ کانگ اور مکاو سے متعلق امور کے دفتر کے دپٹی ڈائریکٹر یانگ زیاومنگ نے منگل کے روز بتائی۔
ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ آنے والی ترامیم کا مقصد ہانگ کانگ کے بنیادی قانون کو ایک زندہ قانون کے طور پر رکھنا ہے تاکہ یہ قابل تشریح بن سکے۔
بنیادی قانون کے نام سے موسوم ہانگ کانگ کا دستور 1997 میں اس وقت بنایا گیا تھا جب اسے برطانیہ کے سو سالہ نو آبادیاتی حکمرانی کے بعد چین کو واپس دیا گیا تھا۔ اس قانون کو ایک ملک دو نظام کی روح کے تحت بنایا گیا تھا تاکہ اس سے ہانگ کانگ میں غیر معمولی آزادیاں اور آزاد عدلیہ پہلے کی طرح قائم رہ سکیں۔
لیکن رواں سال جون میں چین نے ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کے بڑے پیمانے پر ہونے والے مظاہروں کے بعد سلامتی کا ایک نیا قانون بنایا۔ یہ نیا قانون سول سروس کے ممبران اور قانون سازوں کو بنیادی قانون کی پاسداری کا پابند کرتا ہے۔
چینی اہلکار کا یہ بیان ہانگ کانگ کے چارجمہوریت پسند قانون سازوں کے لیجسلیٹو کونسل سے خارج کیے جانے کے ایک ہفتے کے بعد سامنے آیا ہے
یہ اقدم چین کی قانون ساز کونسل کے اس فیصلے کے بعد اٹھایا گیا ہے جس کے مطابق کسی بھی ایسے قانون ساز کو جو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جائے، عدالت جائے بغیر نااہل قرار دیا جا سکتا ہے۔
چار قانون ساز ممبران کے کونسل سے خارج کیے جانے کے بعد پندرہ جمہوریت پسند ممبروں نے اکٹھے استعفی دے دیا۔ اور اب 70 اراکین کی کونسل میں صرف بیجنگ کے حامی قانون ساز باقی رہ گئے ہیں۔