افغانستان سے امریکی فوج کے انخلاء کے بعد چین کا کہنا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ اپنے تعلقات جاری رکھنا چاہتا ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کے ماہرین کہتے ہیں کہ بیجنگ تاحال آئندہ صورتِ حال کے لئے فکر مند ہے اور ہو سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں افغانستان کے لئے بڑے پیمانے پراقتصادی اور سیکیورٹی کے وعدے نہ کرے۔
امریکی وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کے روز چینی سٹیٹ کونسلر اور وزیرِ خارجہ وانگ یی سے افغانستان کی صورتِ حال پر بات کی۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ دونوں وزراء خارجہ نے سیکیورٹی کی صورتِ حال اور اپنے شہریوں کو بحفاظت واپس لانے پر تبادلہ خیال کیا۔
چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ نے پیر کے روز کہا کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور ملک میں تمام فریقوں کی رضامندی کی بنیاد پر افغان طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے اور افغان تنازعے کے کسی سیاسی حل کے لئے تعمیری کردار ادا کرتا رہا ہے۔
ہوا کے بیان کو اس بات کی تازہ ترین علامت خیال کیا جا رہا ہے کہ چین افغانستان میں طالبان کی حکومت جائز تسلیم کرنے کے لیے زمین ہموار کر رہا ہے۔
28جولائی کو وانگ یی نے طالبان کے سیاسی سربراہ ملا عبدالغنی برادر سے جین میں ملاقات کی تھی۔ چین کہہ چکا ہے کہ اسے توقع ہے کہ افغان طالبان ایک وسیع اور مشترکہ سیاسی ڈھانچہ قائم کرنے کے لئے مختلف سیاسی اور نسلی گروپوں کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔
چین افغانستان کے ان ہمسایہ ممالک میں سے ایک ہے جن کی سرحدیں افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں۔ اس نے اپنے سفارتکار 1993 میں افغانستان میں خانہ جنگی کے بعد واپس بلا لئے تھے۔
1996 مین افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بیجنگ نے اس کے ساتھ باضابطہ تعلقات کبھی قائم نہیں کئے۔
جرمن مارشل فنڈ آف دی یونائیٹڈ سٹیٹس کے سینئیر فیلو اینڈریو سمال کہتے ہیں کہ با لاخرچین طالبان قیادت والی حکومت کو تسلیم کر لے گا۔
چینی وزارت برائے امورِ خارجہ کی ترجمان ہوا چوینگ کے مطابق طالبان نے افغانستان کی تعمیرِ نو کے دوران چین کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنے کی امید کا اظہار کیا ہے۔ اور کہا ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین چین کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کر نے کی کبھی اجازت نہیں دیں گے۔
سمال کہتے ہیں اگرچہ بیجنگ طالبان کے اس بیان کا خیر مقدم کرتا ہے، تاہم اسے امریکہ کے افغانستان سے انخلاء کے بعد سیکیورٹی اور معیشت پر ممکنہ منفی اثرات کا بھی خدشہ ہے۔
امریکہ، چین، روس اور پاکستان مشترکہ طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ افغانستان میں طاقت کے بل پر قائم کی گئی کسی حکومت کی حمایت نہیں کرتے۔
یہ چاروں ممالک افغانستان میں پر امن سمجھوتے کے لئے ایکسٹینڈڈ ٹرائیکا کے رکن ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں ایک پر امن سیاسی سمجھوتہ اگرچہ امریکہ اور چین دونوں کے مفاد میں ہے۔ تاہم، یہ بہت غیر معمولی ہے کہ گزشتہ عشرے کے دوران امریکہ اور چین نے مل کر کسی مسئلے پر تعاون کیا ہو، جبکہ بیجنگ اور واشنگٹن کے تعلقات میں دوری مزید بڑھی ہے۔