چین نے مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ میں موجود حراستی کیمپوں میں ایغور مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد کی 'تربیت' جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے۔
چین نے صوبہ سنکیانگ میں ہزاروں ایغور اور دیگر اقلیتوں کو مبینہ طور پر حراستی مراکز میں رکھا ہوا ہے۔ ان حراستی مراکز کو چین 'تربیتی مراکز' قرار دیتا ہے۔
حال ہی میں بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے صحافیوں کی تنظیم 'کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ' (آئی سی آئی جے) کی جمع کی گئی سرکاری دستاویزات شائع کی تھیں۔ ان دستاویزات کے مطابق جن کیمپوں میں ایغور مسلمانوں کو رکھا گیا ہے وہاں کا انتظام جیلوں کی طرح چلایا جا رہا ہے اور اس کا مقصد اقلیتوں کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو ختم کرنا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ 10 لاکھ سے زائد ایغور مسلم اور دیگر اقلیتوں کو اِن کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔
سنکیانگ کے چیئرمین شہرت ذاکر نے پیر کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ 'تربیتی کیمپوں' میں تعلیم حاصل کرنے والے افراد کو بنیادی تعلیم دی جارہی ہے۔ تاہم انہوں نے 'تربیتی مراکز' میں زیرِ تعلیم افراد کی تعداد نہیں بتائی۔
انہوں نے کہا کہ کیمپوں میں موجود طلبہ حکومت کی مدد سے ملازمت حاصل کرنے اور اپنا معیار زندگی بہتر کرنا سیکھ گئے ہیں۔ اُن کے بقول، اس وقت کیمپوں میں موجود طلبہ اپنے کورسز مکمل کر چکے ہیں۔
SEE ALSO: 'چین ایغور مسلمانوں کی مساجد، مذہبی مقامات کو مسمار کر رہا ہے'شہرت ذاکر کا کہنا تھا کہ 'تربیتی کیمپ' جاری رہیں گے اور دوسرے مرحلے میں سنکیانگ کی حکومت دیہی سطح پر روزانہ کی بنیاد پر لوگوں کو تعلیم دے گی۔ تعلیم حاصل کرنے والوں میں کسان، چرواہے اور بے روزگار گریجوئٹس شامل ہیں۔
چین کا مؤقف ہے کہ اس کے 'تربیتی مراکز' بے روزگار افراد کی ملازمت کے حصول کی صلاحیت بڑھانے اور لوگوں کو دہشت گردی سے محفوظ رکھنے کے لیے ہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیموں سمیت امریکہ، ترکی اور دیگر ممالک چین سے حراستی مراکز کی بندش کا مطالبہ کر چکے ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان نے حال ہی میں 'ایغور ایکٹ' منظور کیا ہے جس کے تحت چین کے اعلیٰ عہدیداروں پر پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں جب کہ چین نے اس ایکٹ کو عالمی قانون کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔
اس سے قبل صدر ٹرمپ نے ہانگ کانگ کے مظاہرین کی حمایت سے متعلق ایک بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد چین کا سخت ردِ عمل سامنے آیا تھا۔ یہی نہیں چین نے ہانگ کانگ میں کام کرنے والی امریکہ کی کچھ غیر سرکاری تنظیموں پر بھی پابندیاں عائد کر دی تھیں۔