امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن کے متوقع دورہ چین سے کچھ روز پہلے ہی چین کے ریاست سے منسلک سوشل میڈیا پر ایک تبصرہ نگار نے منگل کے روزامریکہ پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ ایسے حربے استعمال کر رہا ہے اور ایسے ابہام پیدا کر رہا ہے – گویا وہ بات چیت کا خواہاں ہے۔
دوسری جانب بلنکن سمیت امریکی عہدیداروں نے حال ہی میں کہا ہے کہ چین کچھ عرصے سے کیوبا کے ذریعے جاسوسی کر رہا ہے اور اس نے 2019 میں وہاں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کی اپنی صلاحیت میں اضافہ کیا ہے۔
بیجنگ اور ہوانا نے ان الزامات کو غلط قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کر دیا ہے۔
رائیٹرز کے مطابق امریکی وزیرِ خارجہ کے دورہ چین سے پہلے ہی امریکہ کی جانب سے چین پر جاسوسی کا الزام عائد کیا گیا اوردونوں ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے واشنگٹن کے خلوص پر چین کے طنزیہ سوالات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
اگرچہ امریکی محکمہ خارجہ نے بلنکن کے دورہ چین کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے تاہم ایک امریکی عہدیدار نے کہا ہے کہ امریکی وزیرِ خارجہ بلنکن بات چیت کے لیے 18 جون کو چین میں ہوں گے۔ فروری میں انہوں نے امریکہ پرچین کے مشتبہ جاسوس غبارے کی پرواز کے معاملے کے باعث بیجنگ کا اپنا دورہ منسوخ کر دیا تھا۔
چین کے سرکاری نشریاتی ادارے سی سی ٹی وی سے منسلک سوشل میڈیا کے صارف یویان تنتیان نے ایک مضمون میں لکھا،"جب بھی بات ہوتی ہے کہ وہ ملاقات چاہتے ہیں، امریکہ ایسے ابہام پیدا کردیتا ہے کہ وہ بات چیت کا مشتاق ہے جبکہ ساتھ ہی وہ چین کے بنیادی اصولوں کو بھی بار بار آزماتا ہے۔"
SEE ALSO: چین کیوبا میں جاسوسی اڈہ چلا رہا ہے: امریکی اہلکار
پیر کے روز انٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ کیوبا میں چینی کوششیں ، عالمی سطح پر اپنی موجودگی میں توسیع کی کوشش کا ایک حصہ ہیں اور 2021 میں امریکی صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اس سے متعلق امریکی اقدامات نتیجہ خیز ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ نتائج کیا رہے۔
پیر کے روز ہی امریکہ نے چین کے 31 اداروں سمیت کل43 اداروں کو چینی فوجی پائلٹوں کو تربیت فراہم کرنے اور امریکہ کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کی دیگر سرگرمیوں کے الزام میں برآمدات کی کنٹرول لسٹ میں شامل کیا تھا۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وین بِن نے کہا کہ امریکہ بار بار قومی سلامتی کا حوالہ دے کر اپنی طاقت کا " جنون " کی حد تک استعمال کر رہا ہے۔
چینی میڈیا نے بلنکن کے متوقع دورہ چین کو اس بات کی پرکھ قرار دیا ہے کہ آیا امریکہ چین کے ساتھ اعلیٰ سطحی رابطے استوار کرنا چاہتا ہے۔
دوسری جانب امریکی عہدیداروں نے بلنکن کے دورہ چین کے بارے میں ان توقعات کا اظہار کیا تھا کہ چین مفاہمت کا رویہ اختیار کرے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
گزشتہ ہفتے چین میں امریکہ کے سفیر نکولس برنز نے وہائٹ ہاوس کے قومی سلامتی کےمشیر جیک سلیون کا یہ جملہ ٹویٹ کیا تھا کہ امریکہ کو 'امید ہے کہ چین سٹریٹیجک نیوکلئیر معاملات پر ٹھوس پیش رفت پر تیار ہو جائے گا'۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سعودی عرب کے دورے کے موقعے پر امریکی وزیرِ خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی کہا تھا کہ امریکہ کسی ملک سے ایسا مطالبہ نہیں کرتا کہ وہ امریکہ یا چین میں سے کسی ایک کے ساتھ ہونے کا اعلان کرے، لیکن وہ ان فوائد کو واضح کرنا چاہتا ہے، جو امریکہ کی پارٹنرشپ سےحاصل ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے کے شروع میں ہی وائس آف امریکہ نے محکمہ خارجہ کے نائب ترجمان ویدانت پٹیل سے ایک پریس بریفنگ کے دوران سوال کیا تھا کہ کیا واشنگٹن کو ایسامحسوس ہورہا ہے کہ چین دو طرفہ تعلقات کو مستحکم کرنے کے لیے تیار ہے؟
جواب میں ترجمان کا کہنا تھا کہ 'بین الاقوامی برادری ہم سے توقع کرتی ہے کہ ہم عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ اپنے معاملات کو ذمہ داری سے لے کر چلیں، چاہے اس کا تعلق ماحولیاتی بحران سے ہو یا خلیجِ تائیوان کی تجارتی گزرگاہ سے' ۔
( اس خبر کے لیے کچھ مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے)