ہوانگ زتاؤ چین کے گلوکار اور اداکار ہیں۔ وہ جنوبی کوریا کے ایک میوزیکل بینڈ ’ایکسو‘ کا بھی حصہ رہے اور کورین، مندرین اور جاپانی زبانوں میں بھی ان کے گانے بہت مقبول ہوئے۔
دیگر پاپ سنگرز کی طرح زتاؤ کا بھی اپنا خاص انداز تھا۔ آنکھوں پر میک اپ اور کانوں میں بالی اس گلوکار کے ’سگنیچر اسٹائل‘ یا شہرت کا حصہ تھا۔
لیکن گزشتہ دنوں سے زتاؤ کے اسٹائل میں تبدیلی آگئی ہے۔ آنکھوں کا میک اپ غائب ہے اور اب زتاؤ سوشل میڈیا پر جم میں ورزش کی تصاویر اور سلیفیز پوسٹ کر رہے ہیں۔
ایسی ہی تبدیلیاں اور ایک چینی اسٹار وانگ یبو میں بھی دیکھی جا رہی ہیں جو بلیچ سے سنہرے کیے گئے اپنے بالوں کا رنگ پھر سے سیاہ کر چکے ہیں۔
یہ صرف ایک دو مثالیں نہیں بلکہ کئی بہت مقبول اور زیادہ معاوضہ وصول کرنے والے فنکاروں کے رنگ ڈھنگ میں بھی راتوں رات ایسی ہی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
مبصرین ان فنکاروں کے اسٹائل میں آنے والی ان تبدیلیوں کو بدلتے فیشن یا رجحان کے بجائے انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے متعلق حکومت کی پالیسی کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
’نیانگ پاؤ کلچر کو روکو!‘
حال ہی میں ذرائع ابلاغ کے لیے قواعد و ضوابط بنانے والے چین کے ادارے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی وژن ایڈمنسٹریشن اور دیگر حکومتی ایجنسیوں نے یہ واضح کیا ہے کسی ’نیانگ پاؤ‘ کو رول ماڈل بنا کر پیش نہیں کیا جائے گا۔
Your browser doesn’t support HTML5
نیانگ پاؤ دراصل ایسے مردوں کے لیے استعمال ہونے والی تحقیر آمیز اصطلاح ہے جن میں زنانہ شباہت یا نشست و برخاست میں خواتین سے مشاہبت پائی جاتی ہو۔
یہ اصطلاح 2007 میں تائیوان میں بننے والے ایک ڈرامے سے آئی تھی جس میں ایک مرد کردار کے بارے میں دکھایا گیا تھا کہ وہ ’خواتین کی طرح کمزور اور جذباتی‘ ہے اور اس کردار کے لیے نیانگ پاؤ کا لفظ استعمال ہوا تھا۔
چین میں براڈ کاسٹرز کے لیے بنائے گئے نئے ضابطوں میں ’خوب صورتی کے درست معیارات‘ کے نفاذ پر زور دیا گیا ہے۔ ایسے مرد فن کاروں کو اسکرین پر پیش کرنے سے گریز کی ہدایت دی گئی ہے جو مضبوط مردانہ تشخص کی شرائط پوری نہ کرتے ہوں۔
SEE ALSO: چین میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟
مردانہ لپ اسٹک سے خطرہ
چین میں زیادہ تر لوگ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ زنانہ شباہت رکھنے والے مرد ادکاروں کی مقبولیت کا آغاز ان کے پڑوسی ممالک جاپان اور کوریا سے ہوا۔
یہ ٹرینڈ 1996 میں شروع ہوا تھا جب جاپان کے ایک سپر اسٹار تاکویا کیمورا مردوں کے لیے لپ اسٹک کے ایک اشتہار میں آئے تھے۔ اس اشتہار کے بعد اس کمپنی نے دو ماہ کے عرصے میں 30 لاکھ لپ اسٹکس فروخت کی تھیں۔
بعد ازاں 2018 میں ایک فرانسیسی کمپنی نے ایک چینی اداکار یانگ یانگ کو مردوں کے لیے لپ اسٹک کے اشتہار میں کاسٹ کیا تھا جس پر چین کے سرکاری میڈیا میں تنقید کی گئی تھی۔
اسی دور میں چین میں فلمی کہانیاں لکھنے والے مصنفین کی تنظیم ’نیشنل فلم لٹریچر ایسوسی ایشن‘ کے صدر وانگ ہیلن نے کہا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے سپر اسٹارز ایسے اداکار ہیں جن کی صنف کا تعین کرنا ہی مشکل ہے۔ اس سے چین میں خوب صورتی کے معیارات کو خطرہ لاحق ہے۔
رواں سال فروری میں چین کی وزارتِ تعلیم نے لڑکوں میں ’زنانہ پن‘ کو روکنے کے لیے کچھ تجاویز دی تھیں جس میں یہ ہدایات بھی شامل تھیں کہ لڑکوں کو مضبوط بنانے کے لیے شروع سے انہیں فٹ بال جیسے کھیل اور دیگر جسمانی مشقت کی سرگرمیوں شمولیت کی طرف مائل کیا جائے۔
لڑائی کی تیاری یا سیاست
یونیورسٹی آف نوٹنگھم کے ایشیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر اور سیاسیات کے پروفیسر جوناتھن سلیوان ان تبدیلیوں کو ’افسوس ناک‘ قرار دیتے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بذریعہ ای میل بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ذاتی اسٹائل زندگی کے ان چند شعبہ جات میں سے ایک ہے جہاں سیاسی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور چین کے نوجوانوں کو اپنے انفرادی اظہار کی آزادی ہونی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر نوجوانوں کی اس آزادی پر بھی قدغنیں لگائی جائیں تو یہ افسوس ناک ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین میں ’مردانگی کے بحران‘ کا تاثر گزشتہ کئی برس سے عام کیا جا رہا ہے۔
خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق رواں ماہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان حکام سے خطاب میں صدر شی نے کہا تھا کہ وہ کبھی بزدلی کا مظاہرہ نہ کریں۔
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ صدر شی کی قیادت میں کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام کا حصہ ہے کہ چینی نوجوانوں کو سخت جان بنایا جائے تاکہ وہ ہر دم کڑے وقت کے لیے تیار رہیں۔
SEE ALSO: چین: کمیونسٹ پارٹی کے 100 سال، کن باتوں کو عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا؟لیکن انٹرٹینمنٹ کے شعبے کے رجحانات اس میں رکاوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس لیے سخت ضابطے لاگو کیے جا رہے ہیں۔
سلیوان کے مطابق ان سختیوں کو کسی تنازع کے لیے تیاری سے زیادہ اس کوشش کا حصہ قرار دیتے ہیں جس میں صدر شی کی حکومت کو زیادہ مضبوط دکھانا مقصود ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں صدر شی کے سیاسی افکار کو ابتدائی تعلیمی نصاب میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ چین کے نوجوانوں میں آن لائن گیمنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنے کے لیے مختلف پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔
چینی سماج میں ردِ عمل
چین کے سرکاری ویب پورٹل چائنا انٹرنیٹ انفارمیشن سینٹر نے گزشتہ دنوں ’ہمیں نیانگ پاؤ کا کلچر روکنا ہو گا‘ کے عنوان سے ایک مضمون پوسٹ کیا تھا۔ اس مضمون میں چین کے چند مقبول اداکاروں کی تصاویر بھی شامل تھیں۔
اس مضمون پر چین میں کئی انٹرنیٹ صارفین نے یہ ردِ عمل ظاہر کیا تھا کہ ہمیں کسی کے خوب صورتی کے معیارات پر رائے زنی نہیں کرنی چاہیے۔
ایک صارف نے لکھا کہ ہمیں خوب صورتی سے متعلق اپنے معیارات دوسروں پر نہیں تھوپنے چاہئیں۔
ایک اور صارف کا کہنا تھا کہ حسن کی تمام ہی اشکال قابلِ احترام ہیں۔ لڑکیوں کا زنانہ اور لڑکوں کو مردانہ ہونا ضروری نہیں۔
Your browser doesn’t support HTML5
’اے ایف پی‘ کے مطابق چین میں کئی نوجوان انٹرٹینمنٹ کے شعبے کے لیے نئے حکومتی ضابطوں کو غیر ضروری اور حد سے تجاوز قرار دیتے ہیں۔
ایک مشہور ٹی وی شو کی مداح سو نے خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میں عاقل و بالغ ہوں اور اپنا اچھا برا سمجھتی ہوں۔
سو کا کہنا تھا کہ سب کو ایک ہی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں معاشرے میں تنوع اور رنگا رنگی کو ختم کردیں گی۔
اس تحریر میں شامل بعض معلومات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہے۔