رسائی کے لنکس

چین میں انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن کیوں کیا جا رہا ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

چین میں انٹرٹینمٹ انڈسٹری کے خلاف ایک ایسے کریک ڈاؤن کا آغاز ہو گیا ہے جسے بعض تجزیہ کار 1960 اور 1970 کی دہائی کے ’ثقافتی انقلاب‘ کی باز گشت قرار دے رہے ہیں۔

گزشتہ ماہ کے آخر میں چین کی معروف میسجنگ ایپ 'وی چیٹ' پر ایک مضمون پوسٹ کیا گیا تھا جس سے اشارہ ملتا تھا کہ آئندہ کیا حالات پیش آنے والے ہیں۔

یہ مضمون بعدازاں پیپلز ڈیلی اور شنہوا نیوز ایجنسی جیسے چین کے ریاستی میڈیا پر بھی شائع کیا گیا۔ اس مضمون کا عنوان تھا 'ہر کوئی محسوس کرسکتا ہے کہ اصلاحات آنے والی ہیں۔'

چین کے قومی ریڈیو اور ٹیلی وژن کی انتظامیہ نے دو ستمبر کو ہدایت نامہ جاری کیا تھا جس میں فن کاروں کو ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے سے گریز کرنے کا کہا گیا ہے جس کا نوجوانوں پر 'برا' اثر پڑ سکتا ہو اور جس سے سماجی ماحول 'آلودہ' ہونے کا بھی خدشہ ہو۔

ان ہدایات میں فن کاروں کے کام کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی تائید کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کے مؤقف سے مطابقت رکھنے والے سیاسی خیالات کو فروغ دینے کی تاکید کی گئی ہے۔

سیاسی رسہ کشی کا اشارہ

بیجنگ میں جاپانی اخبار کے نامہ نگار رہنے والے آکیو یائیتا نے وائس آف امریکہ مندرین سروس سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کے خلاف کریک ڈاؤن صدر شی جن پنگ اور ان کے مخالفین کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا پتا دیتا ہے۔

یائیتا کا کہنا ہے کہ شی سرمایہ داری کے حق میں اور موجودہ نظام میں اصلاحات کے لیے بات کرنے والوں کے لیے خوف کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں۔

فون پر وی او اے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ صدر شی 'اندھی' حب الوطنی کو فروغ دے رہے ہیں۔ ان کے اقدامات سے دولت مندوں کے خلاف نفرت، حسد، رشک اور سلیبریٹیز کے خلاف منافرت بڑھ رہی ہے۔

چین: 'ون چائلڈ' سے 'تھری چائلڈ' پالیسی تک
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:35 0:00

ان کے مطابق صدر شی چین میں ثقافتی انقلاب کے دور جیسے حالات پیدا کر رہے ہیں۔

چائنیز کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) اور موجودہ چین کے بانی ماؤزے تنگ نے اقتدار پر اپنی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے 60 کی دہائی میں اقدامات کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ جن کے بعد ایک دہائی تک چین میں جاری رہنے والی سیاسی ہنگامہ خیزی کو 'ثقافتی انقلاب' کا دور کہا جاتا ہے۔

اس دوران چین میں لاکھوں فن کار، مفکرین اور دانشور قید خانوں میں ڈال دیے گئے تھے یا ان سے کھیتوں میں جبری مشقت لینے جیسے سخت اقدامات کیے گئے تھے۔

چینی فن کاروں کے خلاف کریک ڈاؤن

چین کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر حکومت کا مبینہ کریک ڈاؤن سلیبریٹیز کے تین بڑے اسکینڈل سامنے آنے کے بعد شروع ہوا ہے۔

رواں برس جنوری میں چین کی سپر اسٹار اداکار ژینگ شوانگ کے سابق شوہر اور پروڈیوسر ژینگ ہینگ نے چین کے ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ویبو' پر اطلاع دی تھی کہ وہ کیلی فورنیا میں ہیں۔ جہاں وہ دو بچوں کی دیکھ بھال کر رہے ہیں جو دو سروگیٹس سے پیدا ہوئے تھے جن کی خدمات اس کام کے لیے حاصل کی تھیں۔

بعدازاں جب سروگیٹس حاملہ ہوئیں تو ژینگ ہینگ اور ژینگ شوانگ میں مبینہ طور پر علیحدگی ہوگئی اور اداکارہ کے شوہر نے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ بچوں کی ذمے داری سے دست برادر ہو گئی ہیں۔

واضح رہے کہ بچے کی پیدائش کے لیے کسی خاتون کی خدمات حاصل کرنے کو سروگیسی کہا جاتا ہے۔ اس کے لیے یا تو بیضہ اور نطفہ دونوں ماں کی کوکھ میں داخل کیے جاتے ہیں یا سروگیٹ کا اپنا بیضہ اس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اس خبر نے چین میں بھونچال پیدا کر دیا کیوں کہ وہاں سروگیسی پر بہت پہلے پابندی عائد کی جاچکی تھی۔

چین کے سرکاری اخبار 'گلوبل ٹائمز' کے مطابق حکام نے 27 اگست کو اداکارہ ژینگ شوانگ پر چار کروڑ 60 لاکھ ڈالر کا جرمانہ عائد کیا۔ شنگھائی ٹیکس آفس کے مطابق اداکارہ نے جعلی کانٹریکٹس پر دستخط کر کے اور ٹی وی ڈرامے کی ادائیگیوں کے جعلی دستاویز کے ذریعے ٹیکس چوری کا ارتکاب کیا۔

اسی دن چین میں بھاری معاوضہ لینے والی اداکارہ ژاؤ وی کا انٹرنیٹ پر موجود تمام کام غائب ہو گیا۔ اداکارہ کی سوشل میڈیا اور اسٹریمنگ پلیٹ فورمز پر موجود ویڈیوز بھی 'غائب' ہو گئیں۔

ان کا فین کلب بند کر دیا گیا اور جن فلموں اور ٹی شوز میں ژاؤ وی نے کام کیا تھا وہ بھی اسکرین سے غائب ہو گئے۔

ژاؤ اداکاری اور پر تعیش مصنوعات تیار کرنے والے برینڈز کی اشتہاری مہم کے لیے اتنا بھاری معاوضہ وصول کرتی ہیں کہ فوربس میگزین کے مطابق انہیں چین کے شوبز صنعت کا 'وارن بفٹ' کہا جاتا ہے۔ وارن بوفٹ امریکی بزنس مین ہیں جن کا شمار دنیا کے سرِ فہرست امیر ترین افراد میں ہوتا ہے۔

ژاؤ سابق کنڈر گارڈن استاد تھیں۔ انہیں مبینہ طور پر چینی ارب پتی اور علی بابا گروپ کے بانی جیک ما کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔ جیک ما بھی گزشتہ کچھ عرصے سے چینی حکومت کے عتاب کا شکار رہے ہیں۔

پولیس نے 16 اگست کو 30 سالہ چینی نژاد کینیڈین اداکار کرس وو یفان کو خاتون کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ جب ان کی عمر 17 برس تھی تو یفان نے انہیں نشہ آور مشروب پلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا تھا۔

سی این این اور بی بی سی کے مطابق وو یفان نے ان الزمات کی تردید کی ہے۔

’کمیونسٹ پارٹی خوف زدہ ہے‘

برلن میں قائم جرمن کونسل آن فارن ریلیشنز کی ایشیا پروگرام سے وابستہ سینیئر فیلو ڈی ڈی کرسٹین ٹیٹلو کا کہنا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی آزادی سے خوف زدہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ آزادانہ انسانی تجربات جن سے زندگی کے مختلف تفہیم ہوتی ہے سی سی پی اسے اپنے اقتدار کے لیے چیلنج سمجھتی ہے۔

وی او اے مندرین سے بذریعہ ای میل بات کرتے ہوئے ٹیٹلو کا کہنا تھا کہ انٹرٹینمنٹ کا شعبہ ثقافت یا نظریات پر کمیونسٹ پارٹی کے کنٹرول کو چیلنج کرتا ہے اس لیے جو لوگ مشہور ہوجاتے ہیں انہیں خطرہ تصور کیا جانے لگتا ہے۔

ٹیٹلو کا کہنا ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کسی بھی ایسی کہانی کو برداشت نہیں کرتی جو چین کے متعلق حکومتی بیانیے سے مختلف ہو۔ اس لیے کوئی بھی متبادل آواز خاموش کر دی جاتی ہے۔

اقدامات غیر متوقع نہیں!

بعض ماہرین کے نزدیک انٹرٹینمنٹ انڈسٹری پر چین کا کریک ڈاؤن ان کے لیے غیر متوقع نہیں ہے۔

یونیورسٹی آف نٹنگھم کے ایشیا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ میں چائنا پروگرام کے ڈائریکٹر جوناتھن سلیوان کا کہنا ہے کہ چین کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں ایسا بہت کچھ جمع ہوگیا تھا جس کی صفائی ضرور تھی اس لیے اصلاحات کا مطالبہ اچانک سامنے نہیں آیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ماضی میں بھی اس سلسلے میں اقدامات ہوتے رہے ہیں لیکن اس سے صورتِ حال زیادہ تبدیل نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ سے زیادہ فیصلہ کُن اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس بار ہونے والے اقدامات اس لیے زیادہ محسوس کیے جارہے ہیں کیوں کہ صدر شی کی پالیسی کے تحت ملک کے ہر شعبے میں پالیسی سطح پر کریک ڈاؤن کیا جا رہا ہے۔

سلیوان کے بقول فن کاروں کی مقبولیت کی وجہ سے ان کے خلاف کارروائیوں کو ثقافتی انقلاب کے تناظر میں دیکھنا مناسب نہیں ہو گا۔ درحقیقت سلیبریٹیز یا معروف شخصیات سماج پر براہِ راست اثر انداز ہوتے ہیں۔ لہذا ان کے لیے سیاسی اور سماجی ذمے داریاں مختص کی گئی ہیں۔

چین کی سفارت کاری میں پانڈا کا کردار
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:46 0:00

انہوں نے کہا کہ چین کی حکومت کی حالیہ مہم فن کاروں پر اثر انداز ہونے کے لیے ہے تاکہ وہ حکومت کو مطلوبہ انداز میں اپنی سماجی و سیاسی ذمے داریاں ادا کریں۔ اس لیے اس میں حیران ہونے کی کوئی بات نہیں۔

سلیوان کا کہنا ہے کہ سلیبرٹی اور ان کے فین کلبز کا کلچر چین میں تیزی سے پھیل رہا ہے اور کمیونسٹ پارٹی اسے عوامی حلقوں پر اپنے اثر و رسوخ کے لیے خطرہ تصور کرتی ہے۔ اس لیے جب کوئی فرد لوگوں کی زیادہ توجہ حاصل کرتا ہے تو وہ ان کے نشانے پر آجاتا ہے۔

فین کلبز کے خلاف کریک ڈاؤن

گزشتہ دو دہائیوں کے دوران چین میں 'فین کلبز' کا رواج بہت عام ہوا ہے۔ ملک کی معیشت کی ترقی کے ساتھ وہاں اداکاری و گلوکاری جیسے شعبوں کے سپر اسٹارز بھی سامنے آئے ہیں جن کے پرستاروں کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

یہ معروف شخصیات اپنے پرستاروں پر گہرا اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ اسی لیے بڑی کمپنیاں اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے ان سے رجوع کرتی ہیں۔

بیجنگ میں ڈیٹا فراہم کرنے والی کمپنی 'اینڈیٹا' نے 2020 میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق چین میں معروف شخصیات کی اشتہارات اور مصنوعات کی پروموشن جیسے مقاصد کے لیے خدمات حاصل کرنے کے شعبے میں سالانہ 20 ارب ڈالر کا کاروبار ہو رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 'فین کلبز' میں عام طور پر 1995 کے بعد بڑے شہروں میں پیدا ہونے والی نسل کی خواتین کی زیادہ بڑی تعداد دلچسپی لیتی ہے۔ ان میں سے نصف سے زائد طالبِ علم ہیں۔

چین کی سائبر ایڈمنسٹریشن کی جانب سے فین کلبز پر شدید تنقید کی جاتی رہی ہے۔ اس کا الزام ہے کہ فین کلب کم عمر نوجوانوں میں فضول خرچی، سلیبریٹی رینکنگ میں ووٹ دینے اور نوجوانوں کو آن لائن پریشان کرنے کو فروغ دے رہی ہے۔

رواں برس مئی میں ایسے آن لائن فین کلبز کے خلاف حکومت نے باقاعدہ مہم کا آغاز کیا تھا۔ اس کے بعد سائنا ویبو، ٹک ٹاک، ٹینسینٹ جیسی چین کی معروف ترین سوشل میڈیا کمپنیوں نے فین کلبز کو حکومتی ہدایات کے مطابق چلانے کے لیے شروع کی گئی مہم کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

چین کے سرکاری خبر رساں ادارے 'شنہوا' کے دو اگست کی رپورٹ کے مطابق دو ماہ کے عرصے میں کی گئی ڈیڑھ لاکھ مضر پوسٹس کو ڈیلیٹ کیا گیا اور چار ہزار مشتبہ اکاؤنٹ بند کردیے گئے۔ اس کے علاوہ ’مسائل‘ پیدا کرنے والے چارہزار فین کلب بھی ختم کردیے گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG