ییلی میں کمیونسٹ پارٹی کے نائب سربراہ لی مینگہوئی کا کہنا تھا کہ اس اجتماع سے چین کے بقول دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی پر ’’پختہ عزم‘‘ ظاہر ہوتا ہے۔
چینی حکام نے شورش زدہ خطے سنکیانگ میں ایک عوامی تقریب میں دہشت گردی کے الزامات پر 55 افراد کو قید کی سزا سنائی جن میں سے تین کو موت کی سزا کا حکم سنایا گیا۔
سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق شمالی صوبے کے ییلی کے علاقے میں ایک اسٹیڈیم میں ہونی والی اس کارروائی کو 7 ہزار مقامی افراد اور عہدیداروں نے دیکھا۔
سزائے موت پانے والے تین کے علاوہ باقی افراد کو قتل، علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروہوں کا حصہ رہنے پر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
وہاں پولیس نے مزید 65 افراد کی ان ہی الزامات پر گرفتاری کا اعلان بھی کیا۔
ییلی میں کمیونسٹ پارٹی کے نائب سربراہ لی مینگ ہوئی کا کہنا تھا کہ اس اجتماع سے چین کا ان کے بقول دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی پر ’’پختہ عزم‘‘ ظاہر ہوتا ہے۔
صوبے کے مرکزی شہر اورمچی میں گزشتہ ہفتے ہونے والے مہلک حملے کے بعد بیجنگ نے وہاں ایک سال تک سیکورٹی کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے میں 43 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
سنکیانگ میں ایغور مسلمان آبادی اکثریت میں ہے جو کہ اکثر مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے امتیازی رویے کی شکایت کرتی نظر آتی ہے۔
بیجنگ کے مطابق یہ حملے علیحدگی پسندوں نے غیر ملکیوں کی امداد سے کئے اور چین کی حکومت نے نچلے درجے کی اس شورش کو کچلنے کا عزم کر رکھا ہے۔
سرکاری خبررساں ایجنسی ژنہوا کے مطابق شمالی صوبے کے ییلی کے علاقے میں ایک اسٹیڈیم میں ہونی والی اس کارروائی کو 7 ہزار مقامی افراد اور عہدیداروں نے دیکھا۔
سزائے موت پانے والے تین کے علاوہ باقی افراد کو قتل، علیحدگی پسند اور دہشت گرد گروہوں کا حصہ رہنے پر قید کی سزائیں سنائی گئیں۔
وہاں پولیس نے مزید 65 افراد کی ان ہی الزامات پر گرفتاری کا اعلان بھی کیا۔
ییلی میں کمیونسٹ پارٹی کے نائب سربراہ لی مینگ ہوئی کا کہنا تھا کہ اس اجتماع سے چین کا ان کے بقول دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور انتہا پسندی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی پر ’’پختہ عزم‘‘ ظاہر ہوتا ہے۔
صوبے کے مرکزی شہر اورمچی میں گزشتہ ہفتے ہونے والے مہلک حملے کے بعد بیجنگ نے وہاں ایک سال تک سیکورٹی کارروائی کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس حملے میں 43 افراد ہلاک اور 90 سے زائد زخمی ہوئے تھے۔
سنکیانگ میں ایغور مسلمان آبادی اکثریت میں ہے جو کہ اکثر مذہبی اور ثقافتی اعتبار سے امتیازی رویے کی شکایت کرتی نظر آتی ہے۔
بیجنگ کے مطابق یہ حملے علیحدگی پسندوں نے غیر ملکیوں کی امداد سے کئے اور چین کی حکومت نے نچلے درجے کی اس شورش کو کچلنے کا عزم کر رکھا ہے۔