واشنگٹن —
چین کی حکومت نے مسلم اکثریتی علاقے سنکیانگ میں شدت پسندوں کا سراغ لگانے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کے لیے چھاپہ مار مہم کا آغاز کردیا ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے 'شنہوا' نے سنکیانگ حکومت کے عہدیداران کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایک سال تک جاری رہنے والی اس مہم کے دوران تمام سیاسی اورقانونی راستوں اور فوج اور پولیس کا استعمال کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق مہم کا مقصد علاقے میں سرگرم دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسند گروہوں، اسلحہ اور گولہ بارود بنانے والے خفیہ کارخانوں اور دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کا سراغ لگانا ہے۔
'شنہوا' کے مطابق کارروائی کے دوران دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلنے سے روکا جاسکے۔
جون 2015ء تک جاری رہنے والی یہ کارروائی چین کی مرکزی حکومت اور انسدادِ دہشت گردی کی نگرانی کرنے والے قومی ادارے کی منظوری سے کی جارہی ہے جس کا مرکز مسلم اکثریتی علاقہ سنکیانگ ہوگا۔
خیال رہے کہ سنکیانگ کے مرکزی شہر ارمچی کی ایک سبزی منڈی میں جمعرات کو پانچ خود کش حملہ آوروں کے حملے میں 31 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ارمچی میں یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل اپریل میں شہر کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بم حملے اور چاقووں کے وار سے ایک شخص ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔
چینی حکومت نے حالیہ وارداتوں کا الزام بھی ماضی کی طرح ایغور علیحدگی پسندوں کی گوریلا تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' پر عائد کیا ہے جو سنکیانگ کی چین سے آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
سنکیانگ میں ایغور نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو چینی حکومت پر مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
چینی حکومت کا الزام ہے کہ اس تنظیم کو غیر ملکی شدت پسندوں کی مدد اور مالی معاونت بھی حاصل ہے۔
لیکن چین کے ناقدین کا موقف ہے کہ مسلمان علیحدگی پسندوں کی تحریک اتنی موثر نہیں جتنی چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے اور چین خطے میں سکیورٹی سے متعلق خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہاں سخت سکیورٹی انتظامات کا جواز پیش کرسکے۔
سرکاری خبر رساں ادارے 'شنہوا' نے سنکیانگ حکومت کے عہدیداران کے حوالے سے خبر دی ہے کہ ایک سال تک جاری رہنے والی اس مہم کے دوران تمام سیاسی اورقانونی راستوں اور فوج اور پولیس کا استعمال کیا جائے گا۔
حکام کے مطابق مہم کا مقصد علاقے میں سرگرم دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسند گروہوں، اسلحہ اور گولہ بارود بنانے والے خفیہ کارخانوں اور دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کا سراغ لگانا ہے۔
'شنہوا' کے مطابق کارروائی کے دوران دہشت گردوں اور شدت پسندوں کا سراغ لگا کر انہیں کیفرِ کردار تک پہنچایا جائے گا تاکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ملک کے دیگر علاقوں تک پھیلنے سے روکا جاسکے۔
جون 2015ء تک جاری رہنے والی یہ کارروائی چین کی مرکزی حکومت اور انسدادِ دہشت گردی کی نگرانی کرنے والے قومی ادارے کی منظوری سے کی جارہی ہے جس کا مرکز مسلم اکثریتی علاقہ سنکیانگ ہوگا۔
خیال رہے کہ سنکیانگ کے مرکزی شہر ارمچی کی ایک سبزی منڈی میں جمعرات کو پانچ خود کش حملہ آوروں کے حملے میں 31 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ارمچی میں یہ دوسرا بڑا حملہ تھا۔ اس سے قبل اپریل میں شہر کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ہونے والے بم حملے اور چاقووں کے وار سے ایک شخص ہلاک اور 79 زخمی ہوگئے تھے۔
چینی حکومت نے حالیہ وارداتوں کا الزام بھی ماضی کی طرح ایغور علیحدگی پسندوں کی گوریلا تنظیم 'ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ' پر عائد کیا ہے جو سنکیانگ کی چین سے آزادی کی مسلح جدوجہد کر رہی ہے۔
سنکیانگ میں ایغور نسل کے مسلمانوں کی اکثریت ہے جو چینی حکومت پر مذہب اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک روا رکھنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔
چینی حکومت کا الزام ہے کہ اس تنظیم کو غیر ملکی شدت پسندوں کی مدد اور مالی معاونت بھی حاصل ہے۔
لیکن چین کے ناقدین کا موقف ہے کہ مسلمان علیحدگی پسندوں کی تحریک اتنی موثر نہیں جتنی چینی حکومت دعویٰ کرتی ہے اور چین خطے میں سکیورٹی سے متعلق خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے تاکہ وہاں سخت سکیورٹی انتظامات کا جواز پیش کرسکے۔