چین نے تبتی باشندوں کی اکثریت کے حامل اس علاقے میں نئے انتظامی عہدیدار کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے جہاں گزشتہ ایک برس کے دوران 20 سے زائد بدھ بھکشو، راہبائیں اور ان کے حامی تبت پر چینی اقتدر کے خلاف بطورِ احتجاج خود کو نذرِ آتش کرچکے ہیں۔
چینی ذرائع ابلاغ نے بدھ کو خبر دی ہے کہ لی زومنگ کو ضلع 'ابا' میں حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی کا نیا سیکریٹری جنرل تعینات کیا گیا ہے۔ ابا حالیہ برسوں کے دوران میں تبتی باشندوں کی جانب سے چین مخالف احتجاج کا مرکز رہا ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کی مقامی شاخ کی ویب سائٹ کے مطابق مسٹر لی کا تعلق چین کی اکثریتی 'ہان' نسل سے ہے اور انہوں نے تین عشروں تک قانون نافذ کرنے والے مقامی اداروں میں خدمات انجام دی ہیں۔
ویب سائٹ کے مطابق اپنی تقرری کے بعد مسٹر لی نے مقامی حکام سے کہا ہے کہ وہ علاقائی ترقی اور استحکام کے اہداف میں توازن پیدا کریں اور ان کے بقول علاقے کے استحکام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔
دریں اثنا چین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ژنہوا' کے مطابق کشیدگی کا شکار چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ کی انتظامیہ نے شہریوں کے لیے عوامی لیکچر منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے ۔
عہدیداران کے مطابق لیکچروں کا مقصد علاقے کے ایغور نسل سے تعلق رکھنے والے رہائشیوں میں "مناسب لباس اور حب الوطنی کو فروغ" دینا اور "غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں " کی حوصلہ شکنی کرنا ہے۔
یاد رہے کہ سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے چینی باشندوں کے مابین چپقلش کی تاریخ کئی دہائیوں پر مشتمل ہے۔ دونوں نسلی گروہوں کے مابین 2009ء میں ریاست کے مرکزی شہر ارمچی میں ہونے والے فسادات میں لگ بھگ 200 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔